Sunday, May 10, 2015

اقبال شناسی یا اقبال تراشی ۔۔ ۲



۵
آئیے خطبات میں اظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیں جن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اور جو ’’جریدہ‘‘ میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ سے نقل کر رہا ہوں اور ہر انگریزی اقتباس کے آخر میں دیا گیا صفحہ نمبر بھی اسی کتاب سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے انگریزی عبارت کو اردو ترجمے پر ترجیح دی ہے کیونکہ میں نے اردو ترجمے کو بیشتر جگہوں پر اقبال کے انگریزی متن کے مقابلے میں گنجلک، اور بعض مقامات پر ناقص پایا۔ ہر اقتباس کے بعد سہیل عمر کا تبصرہ درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اقبال کے نقطۂ نظر کی بابت اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں:


Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the contents of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity.... Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience.... In the lecture that follows, I will aply the intellectual test. (p-54-55)
سہیل عمر: ’’سطوربالا میں مذکور امتحان اول کو اس طرح کے وجدان کے لیے قبول کیا جا سکتا ہے جسے ہم نے Psychic تجربات سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اس امتحان کو اس ذات کے مشاہدے پر کیونکر لاگو کیا جا سکتا ہے جو ہرتجربے اور واردات سے بالا ہے۔ نیز اگر اس کسوٹی، اس آزمائش کو مشاہدۂ حق کا معیار مان لیا جائے تو Mystic اس وحی قرآنی پر ایمان کی ضرورت سے مستغنی ہو جائے گا جو آنحضرت پر نازل ہوئی کیونکہ اس پیمانے پر تو وہ براہ راست علم حق حاصل کرنے کی استعداد کا حامل قرار پائے گا۔‘‘ (ص۵۵)


The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48)
سہیل عمر: ’’اس دعا کی معنویت پر ہمیں ذرا غور کرنا ہو گا۔ نیز یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ نبی علیہ السلام کے عمیق ترین ایقان اور ایک عام آدمی کے ایمان کے مابین کیا فرق ہے: عام آدمی جو حصول یقین کی خاطراپنے ایمان کی عقلی بنیادیں تلاش کر رہا ہو۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی عقیدے کی عقلی بنیادوں کی تلاش کسی معاشرے میں کب جنم لیتی ہے۔ (ص۴۸-۴۹)
Plato despised sense perception which, in his view, yielded mere opinion and no real knowledge. How unlike the Qur’an, which regards hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world. (p-50)
اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے: ادراک بالحواس کے بارے میں افلاطون کا خیال قرآن سے متصادم ہے۔ سہیل عمر کا خیال ہے کہ افلاطون کا قول قرآن سے متصادم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں:
He [Ghazali] failed to see that thought and intuition are organically related… (p-51)
سہیل عمراس نکتے پر اقبال سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزالی کے مطابق ’’وجدان بہ اعتبار کیفیت و نوعیت فکر سے مختلف نہیں ہے۔ فکر اپنے درجۂ کمال کو پہنچ کر وجدان میں ڈھل جاتی ہے۔‘‘ (ص۵۱)
The heart is a kind of inner intuition or insight which, in the beautiful words of Rumi, feeds on the rays of the sun and brings us into contact with aspects of Reality other than those open to sense perception. It is, according to the Qur’an, something which sees; and its reports, if properly interpreted, are never false…. To describe it as psychic, mystical or supernatural does not detract from its value as experience. (p-53)
سہیل عمرکا خیال یہاں بھی اقبال سے مختلف ہے۔’’قرآن میںفواد یاقلب کا لفظ بہت سی جگہ آیا ہے۔معانی کے کئی رنگ اس سے متعلق ہیں مگر ہماری سمجھ کے مطابق کہیں بھی اسے حقیقت اولیٰ کا علم حاصل کرنے والی ایسی استعداد کے معنی میں نہیں لایا گیا جو اس عمل میں کوئی فاعلی حیثیت رکھتی ہو۔‘‘ (ص۵۳)
The problem of Christian mysticism alluded to by Professor James has been in fact the problem of all mysticism. The demon in his malice does counterfeit experiences wich creep into the circuit of the mystic state. As we read in the Qur’an: "We have not sent any Apostle or Prophet before thee among whose desires Satan injected not some wrong desire, but God shall bring to naught that which Satan has suggested. Thus shall God affirm His revelation, for God is Knowing and Wise." (22:25) (p-57)
سہیل عمرکہتے ہیں: ’’اس استدلال پر کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ نذیر نیازی صاحب نے اپنے ترجمے کے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ ان کے خیال میں آیت مذکورہ بالا اس جگہ منطبق نہیں ہوتی۔‘‘ (ص۵۸) (نذیر نیازی کا خیال اپنی جگہ، لیکن کیا یہ اقبال کے ردمیں کافی دلیل ہے جن کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس جگہ منطبق ہوتی ہے؟ اس سے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا موقف نذیر نیازی اور سہیل عمر سے مختلف ہے۔)
All I mean to say is that the immediacy of our experience in the mystic state is not without a parallel. It has some sort of resemblance to our normal experience and probably belongs to the same category. (p-62)
The interpretation that the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted…(p-63)
The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inarticulate feeling, untouched by discursive intellect. (p-63)
Inarticulate feeling seeks to fulfil its destiny in idea, which, in its turn, tends to develop… out of itself its own visible garment. (p-64)
سہیل عمر: ’’اگر اس خصوصیت پر زور دیا جائے تو وحی اور الہام کے درمیان امتیاز کی دیوار ڈھے جائے گی کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ہر دو صورتوں میں تجربے کے حاصلات اور مافیہ کو منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی فکری تعبیر بصورت منطقی قضایا کا ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وحی نبوی کے الفاظ ربانی نہیں ہوتے بلکہ نبی کے اپنے ہوتے ہیں اور قرآن کے الفاظ براہ راست منزل من اﷲ نہیں ہیں۔‘‘ (ص۶۴)
The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe ‘as known to us’ is only a partial expression. (p-85)
From the Ultimate Ego only egos proceed…. Every atom of Divine energy, however low in the scale of esixtence, is an ego. (p-87)
سہیل عمرکہتے ہیں: ’’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظہورذات کا یہ عمل اس عمل خوددمیدگی سے کس طرح مختلف ہے جو اقلیم نامیات یا نموپذیر اشیا میں سامنے آتا ہے نیز یہ کہ اگر انائے مطلق کا ظہورپذیر ہونا اس کے عمل تخلیق کے مترادف ہے تو صفحۂ ہستی پر ظاہر ہونے والی ہر شے کا مبداء اور اصل اس انائے مطلق کی فطرت ہی ہو گا۔ اگر ہر انا ربانی اور قدسی ہے تو اس کا فعالیت کا ہر معلوم بھی ربانی اور قدسی صفت ہو گا: لیکن امرواقعہ یوں نہیں ہے۔ دوسری طرح دیکھئے تو صفحۂ ہستی پر صرف مظاہرخیر ہی نہیں بلکہ شر اور شیطان کے آثار بھی موجود ہیں۔ مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبداء سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘(ص۸۷)
No doubt, the emergence of egos endowed with power of spontaneous and hence unforeseeable action is, in a sense, a limitation on the freedom of the all-inclusive Ego. But the limitation is not externally imposed. It is born out of His own creative freedom whereby He has chosen finite egos to be participators of His life, power and freedom. (p-89)
سہیل عمر: ’’مگر اختیار یا آزادی مقولات مذہبی میں سے ایک ہے اور انسان کے اخلاقی اور مذہبی شعور کا جزو ہے اگر اس کو بے ساختہ اور ازخود فعلیت کا ہم معنی قرار دیا جائے تو اس کی معنویت جاتی رہے گی اس اعتبار سے تو پودے بھی جزواً آزاد اور جانور پوری طرح آزاد ہیں کیونکہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت حرکت نہیں کرتے بلکہ اندرونی داعیے سے متحرک ہوتے ہیں۔‘‘(ص۸۹)
The spirit of all true prayer is social. (p-94)
The Islamic form of association in prayer, therefore, besides its cognitive value, is further indicative of the aspiration to realize this essential unity of mankind as a fact in life by demolishing all barriers which stand between man and man. (p-95)
سہیل عمر: ’’عبادت کی معنویت اس کی فی نفسہٖ اور بالذات قدروقیمت سے متعین ہونا چاہیے نہ کہ ان سماجی، نفسیاتی اور عملی نتائج سے جو اس کے ذیلی ضمنی اثرات تو شمار ہو سکتے ہیں مگر اس کا جواز وجود قرار نہیں دیئے جا سکتے۔‘‘(ص۹۵)
A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self-guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature. (p-102)
The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature. (p-102)
سہیل عمر: ’’تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوری Emergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنزیہ پر زد پڑتی ہے ۔پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیرنامیاتی اور غیرذی حیاتinorganic سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔‘‘(ص۱۰۲)


A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience tends to overflow its boundaries… (p-115) (p-117)
Another way of judging the value of a prophet’s religious experience, therefore, would be to examine the type of manhood that he has created, and the cultural world that has sprung out of the spirit of his message. (p-116)
سہیل عمر: ’’یہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اس استدلال کے منطقی نتیجے میں ولایت اور نبوت کا فرق اپنی اساس میں باقی نہیں رہتا۔...مسئلہ یوں اٹھتا ہے کہ نبوت کو اختباریت کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مناسب بات ہو گی یا نہیں؟‘‘(ص۱۰۲) ’’اس عبارت میںنبی اور نبوت کے تصور کی تفہیم کے لیے اس کو نابغہ کی تشبیہ سے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس لیے یہ مشکل پیدا ہوتی ہے بظاہر یہ تصورخدا سے منقطع لگتا ہے اور سماجی مصلح یا تخلیقی فنکار سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتا ہے اور اسے خدا کے حوالے کے بغیر بھی کائنات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔‘‘ (ص۱۱۷)
The way in which the word wahy (inspiration) is used in the Qur’an shows that the Qur’an regards it as a universal property of life; though its nature and character are different stages of the evolution of life. (p-117)
سہیل عمر: ’’اس عبارت سے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ وحی فوق الطبیعی اور عالم غیب کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک کاملاً طبعی مظہر ہے۔...ایک اصطلاح شرعی جو شعورمذہبی کا لازمہ ہے اور معروضی حقیقت کے طور پر مذہب کے امرواقعہ ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ سابقہ صفحات میں بیان کردہ تصور وحی کا اس تصور سے منطبق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔‘‘ (ص۱۱۸)
The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur’an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality. (p-119) (p-121)
سہیل عمر: ’’...حکومت کو وراثت سے مشروط کسی بھی دین اور تمدن نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ موروثی شہنشاہیت کو یکے از امکانات کے طور پر قبول کیا ہے یا پھر مظاہرزوال میں اس نے غلبہ کر لیا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں جو ایک طویل سلسلہ ملوکیت نظر آتا ہے وہ اسی امکان کا وقوع درتاریخ ہے۔ اسے رد کرنے سے ہمیں اپنی تاریخ کو رد کرنا ہو گا اور اس سے ان گنت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘ (ص۱۲۲-۱۲۳) لفظ ’’ملوکیت‘‘ کے استعمال کی وضاحت کے طور پر حاشیے میں کہتے ہیں: ’’یہ لفظ بعض مصنفین کی تحریروں میں ایک منفی اور تحقیری مفہوم کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں برت رہے ہیں اور اس سے صرف ایک طرزحکمرانی کی شناخت مقصود جانتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔‘‘ (ص۱۳۱)
The world-life intuitively sees its own needs, and at critical moments defines its own direction. This is what, in the language of religion, we call prophetic revelation. It is only natural that Islam should have flashed across the consciousness of a simple people untouched by any of the ancient cultures, and occupying a geographical position where three continents meet together. (p-135)
سہیل عمر: ’’اس اقتباس میں جو لفظ World Life استعمال کیا گیا ہے ...یہ اصطلاح ایک الٰہ شخصی پر ایمان کو مستلزم نہیں ہے۔ اس میں ایک طبیعی تصور کی جھلک ملتی ہے جس سے مذہب مظاہر طبیعی میں سے ایک چیز معلوم ہونے لگتا ہے اور عام انسانی تجربے کی سطح پر آ کر حیاتیاتی تصورات کے قبیل میں سے محسوس ہونے لگتا ہے۔‘‘ (ص۱۳۶)
وغیرہ۔


۶
اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں) درج کی ہے کہ ’’علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔فکراقبال تشکیل جدید کے بعد ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ یہ مستقل کتاب تو میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں، البتہ خرّم علی شفیق کے مضمون میں اس موضوع پر خاصی بحث ملتی ہے جس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اقبال کی فکر ترقی پا کر مرزا منور ، خالد جامعی وغیرہم کی سطح تک نہیں پہنچی تھی (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی ترقی کو اصطلاحاً ’’ترقیِ معکوس‘‘ کہا جاتا ہے) اور ان کے خیالات آخردم تک وہی رہے جو انھوں نے خطبات میں بیان کیے تھے۔ اس مضمون کے جز ۴ میں شاہ ولی کی ’’حجتہ البالغہ‘‘ کے اس اقتباس کے معاملے کا تجزیہ کیا گیا ہے جو اقبال نے اپنے خطبۂ اجتہاد میں پیش کیا تھا۔ ’’جریدہ‘‘ میں علامہ ندوی سے منسوب تبصروں میں اس معاملے کا جو ذکر آتا ہے ، اسے خرم علی شفیق نے ’’رجوع کی ایک اور فینٹسی‘‘ کے تبصرے کے ساتھ یوں نقل کیا ہے:
’’شاہ ولی اﷲ کے نام سے غلط حوالہ پیش کرنا ایک ایسے خطبے میں جسے علما کی نظر سے گزرنا تھا بڑی جرأت کی بات تھی۔ ماجد صاحب نے اس غلطی کو بھی واضح کیا تھا لیکن مرحوم پر یہ غلطی اس وقت واضح نہ ہو سکی۔ جب اقبال مرحوم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور امت کے اجماع کے برعکس رائے دی گئی ہے اور دلیل بھی محرف ہے تو وہ دل گرفتہ ہوئے۔ مجھ سے خط و کتابت کے ذریعے استفسار کیا۔دوسرے علما سے بھی رجوع کیا۔ خطبات پر نظرثانی کا وعدہ کر لیا لیکن مہلت نہ ملی۔اقبال مرحوم کے مسودات میں نظرثانی شدہ عبارتیں مل سکتی ہیں۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، صفحہ۳۶)
خرم علی شفیق کہتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ ندوی سے اقبال کی مراسلت میں اس ’’دل گرفتگی‘‘ کا کوئی شائبہ نہیں ملتا، بلکہ ’’پہلے اجتہاد پر خطبہ دیا تھا، اب پوری کتاب لکھنے کا ارادہ ہے، اور یہ وفات سے صرف بیس مہینے قبل کی بات ہے۔... وہ نظرثانی کا وعدہ کب کیا؟ خطبات کے مباحث سے اقبال کا رجوع ایک ...فینٹسی ہے...‘‘ (ص ۳۷)
عجب اتفاق ہے کہ سہیل عمر کی کتاب کے آخر میں ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل ان کے مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں اقبال کے اسی خطبے میں شاہ ولی سے منسوب اسی اقتباس کا کم و بیش اسی انداز میں ذکر آیا ہے جس انداز میں علامہ ندوی سے منسوب مندرجہ بالا تبصرے میں۔ (فرق صرف اتنا ہے کہ جس شے کو مندرجہ بالا اقتباس میں ’’دل گرفتگی‘‘ کہا گیا اسے سہیل عمر اقبال کے ’’تحیر‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ باقی مضمون واحد ہے۔) دونوں کی اطلاع یہ ہے کہ اقبال نے مذکورہ اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا تھا۔ سہیل عمربتاتے ہیں کہ ’’شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا اس میں اور شاہ ولی کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔‘‘ (ص۲۰۱)
آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ اقبال نے شاہ ولی کی اس عبارت کو اپنے خطبے میں کس طرح استعمال کیا ہے۔ موضوع زیربحث یہ ہے کہ مذہبی روایات (احادیث) کے کون سے حصوں کا تعلق قانونی معاملات سے ہے اور کن کا قانون کے سوا دیگر معاملات سے۔ قانون سے متعلق روایات میں سے بعض ایسی ہیں جو قبل از اسلام زمانے میں عرب میں مروج تھیں اور جنھیں جوں کا توں اسلامی روایت میں شامل کر لیا گیا۔ اقبال شاہ ولی کی عبارت کا اپنے الفاظ میں خلاصہ پیش کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جرائم کی سزاؤں سے متعلق روایات کو، جو عرب قوم کی عادات اور حالات کے مطابق تھیں، جوں کا توں اختیار یا نافذ کیا جانا مناسب نہیں۔
سہیل عمر کہتے ہیں کہ اقبال نے شاہ ولی کی مذکورہ عبارت کو ’’اپنے استدلال کے لیے...بنیاد بنایا۔‘‘ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ شاہ ولی کا ذکر آنے سے پہلے کے جملوں میں وہ اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں کہ دونوں قسم کی روایات میں فرق کیا جانا ضروری ہے، یعنی دونوں قسم کی روایات کو نافذ یا اختیار کرنے میں ایک جیسی سختی مناسب نہیں۔ شاہ ولی کی عبارت کو اقبال نے دلیل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے نقطۂ نظر کی ایک "illuminating" وضاحت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خطبات میں کسی بھی جگہ کسی اسلامی یا مغربی شخصیت کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اقبال نے ہر قول کواپنی دانش کے مطابق پرکھ کر یہ طے کیا ہے کہ وہ اس سے کس حد تک اتفاق یا اختلاف رکھتے ہیں ۔شاہ ولی کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا، خود سہیل عمر کے مذکورہ بالا مفروضات کی رو سے بھی، ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیے، اقبال جن لوگوں سے مخاطب ہیں وہ آپ کے خیال کے مطابق ’’وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے میں ہی متشکک‘‘ (ص۱۸۳) ہیں، اور قرآنی نصوص تک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے؛ پھر بھلاشاہ ولی کا قول ان کے لیے استدلال کی بنیاد کیونکر بن سکتا ہے؟ شاہ ولی اﷲ سے منسوب عبارت کا خلاصہ اقبال نے اس بنا پر اپنے خطبے میں استعمال کیا ہے کہ وہ ان کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ خرم علی شفیق نے علامہ ندوی کے نام اقبال کے ۷ اگست ۱۹۳۶ء کے خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اقبال انگریزی زبان میں ایک کتاب تحریر کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے کہتے ہیں: ’’اس کتاب میں زیادہ تر قوانینِ اسلام پر بحث ہو گی کہ اس وقت اسی کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اگراقبال کا موقف اسلام میں شامل قانونی روایات کو (یعنی مثلاًان سزاؤں کو جنھیں ہمارے یہاں بعض لوگ غلط فہمی میں ’’اسلامی سزائیں’’ یا ’’شرعی سزائیں‘‘ کہتے ہیں) جوں کا توں نافذ کرنے کے حق میں ہوتا تو یہ موقف تو ’’پرانے تخیلات‘‘ میں پوری وضاحت سے بیان کردہ موجود ہی تھا، اس پر بحث کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی؟ صاف ظاہر ہے کہ اقبال کا موقف یہ تھا کہ ان سزاؤں کا تعلق عرب کی قبل از اسلام روایات سے تھا جنھیں، اس ’’خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر‘‘، اسلامی روایات میں قائم رکھا گیا تھا اور دیگر قوموں اور دیگر حالات میں ان کو جوں کا توں نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور خرم علی شفیق کی بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنے اس موقف میں آخر تک ترمیم نہ کی۔ (اقبال کے علاوہ شبلی بھی اسی رائے کے معلوم ہوتے ہیں۔) سہیل عمر کا موقف اقبال سے متضاد ہے، جیساکہ خطبات کے دیگر متعدد مقامات پر ہے، جو کوئی عجیب بات نہیں۔
پاکستان میں یہ بحث نئے سرے سے اس وقت شروع ہوئی جب جنرل ضیاء الحق کے دوراقتدار میں، جسے پاکستانی عوام کی بہت بڑی تعداد (ایک موقف کے مطابق اکثریت) غاصبانہ آمریت کا دور سمجھتی ہے، وہ عمل شروع کیا گیا جسے اسلامائزیشن کانام دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں ان سزاؤں کا نفاذ بھی شامل تھا، جوایک غیرنمائندہ اور غیرمنتخب اقتدار کے زور پر، کسی مذہبی، آئینی یا اخلاقی اختیار کے بغیر کی گئی قانون سازی تھی، جسے بہت سے لوگ مذہب کی ایک مخصوص تعبیر کو پاکستانی عوام پر ان کی مرضی کے خلاف، یا کم از کم ان کی آزادانہ مرضی معلوم کیے بغیر، زبردستی مسلط کرنے کا عمل سمجھتے ہیں۔ ان قوانین سے پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد (یا اکثریت) سخت اختلاف رکھتی ہے اور ان کو منسوخ کرنے کے حق میں ہے۔ جدید دور میں اجتہاد کے پوری طرح اہل مجتہد کے طور پر اقبال کا موقف بھی اس موجودہ عوامی موقف کی واضح طور پر تائید کرتا ہے۔ سہیل عمر اور ان کے ہم خیال حضرات کو اس کے مخالف موقف پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موقف کو متفق علیہ قرار دیں جبکہ دوسرے موقف کی موجودگی اور جمہورامت کی اس کے لیے حمایت کسی ابہام کے بغیر عیاں ہے، اور یہ حق بھی حاصل نہیں کہ تاویل کے ذریعے سے اقبال کو اپنے موقف کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کریں جبکہ اقبال نے اپنے خطبے میں اپنا موقف کسی ابہام کے شائبے کے بغیر بیان کر دیا ہے۔ سہیل عمر کا کہنا ہے:
’’شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزاؤں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو، شاہ صاحب کا نہیں ہے۔‘‘ (۲۱۲)
دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ سہیل عمر اقبال شناسوں کے ساتھ اقبال کو بھی شامل کرتے، کیونکہ یہ سوال ان کا بھی ہے۔ اور اس سوال پر غور کرنے کے بعد اقبال اس غیرمبہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان سزاؤں کو نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ سوال شاہ ولی کا ہے یا نہیں، اس نکتے کا تعلق مذکورہ عبارت کے انتساب سے ہے۔ سہیل عمر کے خیال میں اقبال کی بیان کردہ عبارت کو شاہ ولی سے منسوب کرنا درست نہیں۔ لیکن یہ بھی متفق علیہ موقف نہیں۔ جن اہلِ رائے حضرات سے سہیل عمر نے اس سلسلے میں استصواب کیا، ان میں سے کئی ایک نے دستیاب شہادتوں کی روشنی میں یہ رائے دی کہ شبلی نے شاہ ولی کے موقف کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔ سہیل عمر کا کہنا ہے کہ شاہ ولی کے فکری تناظر میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؛ بعض دوسرے اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ شاہ ولی کا مقصودِ کلام وہی ہے جو شبلی اور اقبال نے بیان کیا۔
بحث کے تیسرے نکتے کے طور پر اپنے مضمون میں سہیل عمر اس بات کے حق میں بحث کرتے ہیں کہ اقبال شاہ ولی سے اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے خطبے پر نظرثانی کرنا چاہتے تھے، لیکن ’’علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔‘‘ (ص۲۱۶) تو سہیل عمر صاحب، خالد جامعی نے آپ سے یہی بیان تو منسوب کیا تھا؛ اس میں ان کی کیا غلطی ہے؟
بہرکیف، اقبال نے ممکن ہے خطبے کا متن تیار کرتے وقت شاہ ولی کی کتاب کا اقتباس شبلی کی ’’الکلام‘‘ سے لیا ہو ، لیکن بعد میں (خرم علی شفیق کی تحقیق کے مطابق ۱۹۲۹ء میں) انھوں نے علامہ ندوی کے نام خط میں لکھا تھا کہ ’’شاہ ولی کی کتاب بھی نظر سے گزر گئی ہے۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، ص۳۶)
سہیل عمر مزید کہتے ہیں: ’’علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔ موجودہ شکل میں ۱۹۲۸ء میں تیار کیا گیا۔‘‘ (’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘،ص۲۱۶) ’’بہرکیف ۱۹۲۸ء تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انہیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدرآباد اور بعد ازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔ پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔‘‘ (ص۲۱۸) ’’گزر گئے‘‘ یوں تو بات کہنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اس سے گمان ہوتا ہے کہ خطبات طباعت کے مرحلے سے (غالباً اپنے اندرونی داعیے پر) یوں گزر گئے جیسے ’’احیائے علوم‘‘ اس مرحلے سے دبے پاؤں گزر جاتا ہے اور مدیر کو کانوں کان خبر نہیں ہونے پاتی! یا یہ کہ خطبات کا متن اقبال کے علم، مرضی یا اجازت کے بغیر شائع کر دیا گیا تھا۔ تاہم، دستیاب شہادتوں سے ایسا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، بلکہ خرم علی شفیق نے اطلاع دی ہے کہ ۱۹۳۴ء میں خطبات کا بین الاقوامی ایڈیشن اقبال کی نہ صرف مرضی سے بلکہ ان کی نگرانی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اس قیاس آرائی (خرم علی شفیق کے الفاظ میں ’’فینٹسی’’) کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اقبال اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اس پر، یا اس موضوع کے بارے میں اپنے موقف پر، نظرثانی کرنا چاہتے تھے۔



No comments:

Post a Comment