Sunday, May 10, 2015

اقبال شناسی یا اقبال تراشی ۔۔ ۱

اجمل کمال




۱
لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے ’’احیائے علوم‘‘ میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳ میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے اور یہ اطلاع دی گئی کہ یہ علامہ سید سلیمان ندوی کے خیالات ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت مند مرید ڈاکٹر غلام محمد نے روایت کیا ہے۔ ان تبصروں کو میں نے اسی بحث کی روشنی میں پڑھا جو ’’احیائے علوم‘‘ میں جاری ہے اور اسی پس منظر میں ان تبصروں کے بعض نکات پر اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں اظہارخیال کیا۔ اپنا مضمون ’’احیائے علوم‘‘ کے مدیر سید قاسم محمود کو بھجواتے ہوے مجھے یہ مناسب معلوم ہوا کہ علامہ ندوی سے منسوب ان تبصروں کے وہ اقتباسات الگ سے نقل کر دوں جنھوں نے میرے خیالات کو تحریک دی تھی۔ میں نے ان اقتباسات پر مشتمل متن بھی’’خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ‘‘ کے عنوان سے سید قاسم محمود کو بھجوا دیا۔ اس متن کے آخر میں یہ وضاحت موجود تھی: ’’(ماخوذ از ’’جریدہ‘‘، شمارہ ۳۳، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)‘‘۔ یہ دونوں متن ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۳ میں الگ الگ مقامات پر شائع ہوے۔ میرے مضمون کے عنوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اقتباسات کے متن کو یہ سرخی دی گئی: ’’خطبات اقبال، علامہ سید سلیمان ندوی کا بصیرت افروز تبصرہ‘‘۔ اس کے علاوہ اس متن کے ساتھ علامہ ندوی کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی۔ ’’احیائے علوم‘‘ کے اس شمارے کی اشاعت کے بعد اقبال اکیڈمی کی طرف سے اکیڈمی کے ناظم محمد سہیل عمر، نائب ناظم احمد جاوید اور ان کے علاوہ خرّم علی شفیق اور چند دیگر اصحاب کا ردعمل سامنے آیا۔ ان تحریروں میں مذکورہ تبصروں کے علامہ ندوی سے منسوب کیے جانے پر شبہات ظاہر کیے گئے اور بعض اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ تحریریں اکیڈمی کی طرف سے شائع کیے جانے والے کتابچے ’’میارا بزم بر ساحل کہ آنجا‘‘ میں شامل کی گئیں اور ان میں سے تین بعد میں ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ۱۴ میں شائع ہوئیں۔
مذکورہ شمارہ ۱۴ کا انشائیہ نما اداریہ بعنوان ’’کمپیوٹر کی شرارت‘‘ پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اس تحریر میں مجھے جن ناکردہ گناہوں کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ان کا ذکر توذرا آگے چل کر ہو گا، لیکن حیرت کا بڑا سبب یہ ہے کہ کمپیوٹر تک سے اداریہ نویس نے ایسے افعال و اعمال منسوب کر دیے ہیں جو عموماً اس سے منسوب نہیں کیے جاتے۔ سید قاسم محمود صاحب، جن کا نام اس رسالے پر مدیر کے طور پر چھپتا ہے، اداریے میں فرماتے ہیں: ’’اب کمپیوٹر ایڈیٹر بن بیٹھا ہے۔ جو چیز چھپنے کے لیے آتی ہے، غڑاپ سے اپنے پیٹ میں ڈال کر سڑاپ سے باہر نکال دیتا ہے...‘‘ کمپیوٹر اور ای میل کا استعمال اب اردو کے اخباروں اور رسالوں میں خاصا عام ہو گیا ہے اور مدیروں کواشاعت کے لیے بھیجی جانے والی بہت سی تحریریں الیکٹرانک ذرائع سے موصول ہوتی اور کمپیوٹر کی مدد سے اشاعت کے لیے مرتب کی جاتی ہیں، تاہم کمپیوٹر کی غڑاپ اور سڑاپ کے درمیان عموماً رسالے کا مدیر واقع ہوتا ہے جو اس ذریعے سے موصول ہونے والی ہرتحریر کا پرنٹ آؤٹ نکال کر (یا نکلوا کر) اسے غور سے پڑھنے کے بعد ہی اس کے قابلِ اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ’’احیائے علوم‘‘ غالباً اردو کا پہلا رسالہ ہے جس میں مدیر نے یہ پورا عمل کمپیوٹر کو سونپ کر اس کا رابطہ براہ راست شرکت پریس سے کرا دیا ہے اور خود چین کی بنسی بجانے کا شغل اختیار کر لیا ہے۔ میں اردو کے اس پہلے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ رسالے کے اجرا پر مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مبارک باد سید قاسم محمود کو دی جائے یا براہِ راست ان کے کمپیوٹر کو۔
لیکن جہاں تک زیربحث مضامین کا تعلق ہے، ان کے سلسلے میں کمپیوٹر کی اس غڑاپ سڑاپ کی قطعی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ یہ دونوں تحریریں جنھیں ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۳ میں مختلف مقامات پر شائع کیا گیا، مدیر کے نام خط کے ساتھ ہارڈ کاپی یعنی کاغذ پر نکالے ہوے پرنٹ آؤٹ کی شکل میں (بقول اداریہ نویس’’رجسٹری سے‘‘) بھیجی گئی تھیں، اور خط میں مدیر سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ اگر وہ انھیں شائع کرنے کا فیصلہ کریں تو ان کی سافٹ کاپی بذریعہ ای میل الگ سے بھیجی جا رہی ہے، اس متن کو استعمال کر لیں تاکہ انھیں نئے سرے سے کمپوزنگ نہ کرانی پڑے اور پروف کی غلطیاں نہ ہوں۔ رسید کے طور پر سید قاسم محمود کا ۲۶ جولائی کا لکھا ہوا خط موصول ہوا کہ ’’آپ کے مرسلہ دونوں مضامین دونوں ذریعوں سے مل گئے ہیں۔ توجّہ فرمائی کا شکریہ۔ ہمیں ایسے ہی مضمونوں کی ضرورت ہے،‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب جیساکہ اداریے میں دیے گئے حلفیہ بیان سے انکشاف ہوا ہے، اگر محترم مدیر نے یہ باتیں خط کے ساتھ منسلک مضامین کو پڑھے بغیر ہی لکھ بھیجیں، اور پھر اشاعت کے لیے منتخب کرتے وقت (یا شائع ہونے کے بعد) بھی انھیں پڑھنے کی زحمت نہ کی تو ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کا قصوروار کمپیوٹر کے سوا کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ یہ فیصلہ بھی یقیناً کمپیوٹر نے کیا ہو گا کہ رسالے کے کن صفحات پر کن تحریروں کو جگہ دی جائے، ان پر کیا عنوان قائم کیا جائے اور کون سی تصویر کہاں لگائی جائے۔ واہ کمپیوٹر جی واہ!
سید قاسم محمود صاحب میرے بزرگ ہیں اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے۔ یعنی ایک طرف رسالوں کو دیدہ زیب اور دلچسپ بنانے کے بہت سے طریقے ان کی مرتب کی ہوئی مطبوعات کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف یہ بھی سیکھا کہ اشاعت کے لیے آنے والی تحریروں کو پڑھے بغیر شائع کرنا سید قاسم محمود کا ایسا عمل ہے جس کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ واقعہ اردو رسالوں میں کمپیوٹر کے مروج ہونے سے برسوں پہلے کا ہے جب ان کی ادارت میں نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں ممتاز مفتی کا سفرنامۂ حج ’’لبیک‘‘ قسط وار شائع ہوا تھا۔ جب یہ سفرنامہ کتاب کے طور پر چھپا تو اس میں سید قاسم محمود کی ایک تحریر بھی شامل تھی جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ان قسطوں کو پڑھے بغیر رسالے میں شائع کیا کرتے تھے۔
اپنے رسالے کے مشمولات اور ان کے مضمرات سے ناواقف ہونے کے باعث، اقبال اکیڈمی کے سرکاری عمّال کے شوروغوغا سے سید قاسم محمود اس قدر گھبرا گئے کہ انھوں نے ہر چیز سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہوے یہ بھی نہ دیکھا کہ ’’خطبات اقبال‘‘ پر جن تبصروں سے اقتباسات منتخب کر کے شائع کیے گئے ہیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے رسالے ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳ سے لیے گئے ہیں اور اس رسالے کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے ہر اقتباس پر مذکورہ رسالے کا صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ ان تبصروں کو علامہ سید سلیمان ندوی سے’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی نے منسوب کیا تھا ، اس لیے اس انتساب کی ذمے داری انھی کے سر جاتی ہے، نہ کہ سید قاسم محمود (یا ان کے کمپیوٹر) کے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو یہ ذمے داری اپنے سر لینے سے قطعی قاصر ہوں۔ خالد جامعی نے وضاحت کے طور پر بتایا ہے کہ علامہ ندوی کے ان خیالات کے راوی ڈاکٹر غلام محمد ہیں، اور بظاہر خالد جامعی کو اس امر پر اطمینان معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت معتبر ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد کون تھے، میں اس سے ناواقف ہوں، اور شمارہ ۱۴ میں اقبال اکیڈمی کے زیراہتمام تیار کیے ہوے جو وضاحتی مضامین شائع کیے گئے ہیں ان میں بھی ان صاحب کا تعارف نہیں کرایا گیا۔ تاہم محمد سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے علامہ ندوی اور ڈاکٹر غلام محمد کے ناموں پر رحمت اﷲ علیہ کی علامت لگائی ہے جس سے اُن دونوں مرحومین کی بابت اِن دونوں کا احترام ظاہر ہوتا ہے۔ ان حضرات نے اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ ڈاکٹر غلام محمد کی گواہی علامہ ندوی کے بارے میں (جو بقول خالد جامعی،ڈاکٹر غلام محمد کے شیخ تھے) کس بنیاد پر نامعتبر ہے۔ بہرحال، چونکہ اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں، خالد جامعی اس بات کے مکلّف ہیں کہ ان شکوک کو رفع کریں۔


۲
خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: ’’امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)‘‘۔...’’کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ [علامہ ندوی] ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ [علامہ ندوی] پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، صفحہ ۲۷۔) اس کے بعد صفحہ ۳۱ پر انھوں نے علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ معلوم کریں کہ یہ ملفوظات واقعی [علامہ ندوی] کے ہیں یا نہیں۔‘‘ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’یہاں بھی وہی شک گزرتا ہے کہ یہ [علامہ ندوی] کے ارشادات ہیں یا کسی اور کا خامۂ ہذیان رقم!‘‘ (ص ۳۳) مزید کہتے ہیں: ’’ان امالی میں جس قسم کی ذہنیت سامنے آتی ہے...اسے [علامہ ندوی] سے منسوب کرنے میں ابھی مجھے تامل ہے مگر یہ ملفوظات جس کسی کے بھی ہوں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک الجھے ہوئے ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ (ص۳۷۔)
ان تمام بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خرم علی شفیق یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات، جنھیں ڈاکٹر غلام محمد اور خالد جامعی نے علامہ ندوی سے منسوب کیا ہے، ان کے ہیں یا نہیں۔ اگر انتساب کا کوئی حتمی ثبوت خالد جامعی نے پیش نہیں کیا (کہا نہیں جا سکتا کہ سینہ بہ سینہ زبانی روایت سے بڑھ کر کون سا ثبوت ہو سکتا تھا) تو سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے بھی قطعی طور پر واضح نہیں کیا کہ یہ زبانی روایت اس مخصوص معاملے میں کیوں ناقابل قبول ہے۔ البتہ خرم علی شفیق نے ان خیالات کا علامہ ندوی کے معروف خیالات سے تضاد بڑی محنت اورقابلیت سے ظاہر کیا ہے۔ تاہم بعض اہل قلم کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ادوار میں ان کی رایوں اور خیالات میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے؛ اس قسم کے ادیبوں میں محمد حسن عسکری مثالی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے تضادبیانی کو ایک فن لطیف کے درجے پر پہنچا دیا۔ خلاصہ یہ کہ خطباتِ اقبال پر ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کا معاملہ ابھی حتمی طور پر طے ہونا باقی ہے؛ جیسا کہ خرم علی شفیق نے کہا ہے، علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کو چاہیے کہ معلوم کریں کہ یہ خیالات ان سے منسوب کیے جانے چاہییں یا نہیں۔
تاہم میری رائے میں ’’جریدہ‘‘ شمارہ ۳۳ میں شائع ہونے والے خیالات کا علامہ ندوی یا کسی اور سے انتساب واحد اہم یا اہم ترین نکتہ نہیں۔ جیساکہ خرم علی شفیق کہتے ہیں، اگر یہ علامہ ندوی کے ’’ملفوظات نہیں ہیں تب بھی یہ خیالات کسی نہ کسی کا نتیجۂ فکر تو ہوں گے،‘‘ چنانچہ ان کا محاکمہ کیا جانا جائز اور ضروری ہے، اور اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے اپنے مخصوص زاویۂ نظر سے ایسا کیا بھی ہے۔ میں نے بھی اپنے مختصر مضمون ’’اجتہاد اور فیصلہ سازی‘‘ میں ان میں سے بعض نکات پر اظہارخیال کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے زیراہتمام (اور ملک کے شہریوں سے وصول کردہ ٹیکسوں کی رقم کے صرف سے) اس قسم کے افسوسناک اور دقیانوسی خیالات کی اشاعت کی جا رہی ہے۔


۳
سہیل عمر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں بلاتحقیق ان سے یہ منسوب کر دیا کہ انھوں نے شہادت دی ہے کہ اقبال نے رحلت سے پیشتر خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ انتساب بھی میرا نہیں، مدیر ’’جریدہ‘‘ خالد جامعی کا ہے، اور اس ضمن میں میں نے مذکورہ اقتباس سے اوپر کے پیراگراف میں ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۴ کا حوالہ دیا ہے۔ اپنا مضمون لکھتے وقت میں ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے لاعلم تھا۔ اس کے شائع ہونے کے بعد سہیل عمر سے ای میل پر میری خط و کتابت رہی اور انھوں نے یہ تمام وضاحتی تحریریں، جو ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۴ میں شائع کی گئی ہیں، پہلے ای میل کے ذریعے اور پھر اکیڈمی کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کی صورت میں، مجھے ارسال کیں۔ میں نے جواباً ان کو اطمینان دلایا کہ اگر میں نے خالد جامعی کی شہادت پر بھروسا کر کے نادانستگی میں ان سے کوئی ایسی بات منسوب کر دی ہے جو انھوں نے نہیں کہی تھی تو مجھے اپنے الفاظ واپس لینے اور معذرت کرنے میں قطعی کوئی عار نہیں ہو گی۔ میں اپنے اس بیان پر اب بھی قائم ہوں ۔ آئیے اب دیکھیں کہ سہیل عمر ’’خطبات اقبال‘‘ کے بارے میں دراصل کیا رائے رکھتے ہیں۔
انھوں نے میری درخواست پر بڑی مہربانی سے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ (جسے انھوں نے اقبال اکیڈمی کے زیراہتمام شائع کیا ہے) مجھے فراہم کی۔ میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اوراسی دوران مجھے اکیڈمی کے رسالے ’’اقبالیات‘‘ اور بعض دوسری مطبوعات میں ’’خطبات‘‘ کے بارے میں اکیڈمی کے سابق ناظم پروفیسر مرزا محمد منور اور حالیہ نائب ناظم احمد جاوید کے خیالات سے بھی کسی قدر واقف ہونے کا موقع ملا۔ ان مطالعات سے تاثر ملتا ہے کہ اکیڈی کے یہ سابق اور موجودہ کارپردازان اقبال کے خطبات کے بارے میں کئی قسم کے تحفظات رکھتے ہیں، اور چند نامعلوم اسباب کی بنا پر ان کی کوشش رہتی ہے کہ اقبال کے خطبات کو ان کی شاعری کے مقابلے پر لایا جائے اور کسی طرح یہ جتایا جائے کہ خطبات ان کی شاعری کی بہ نسبت کم اہمیت کے حامل ہیں اور کہیں کہیں اقبال کے کام کے ان دونوں اجزا کے درمیان، ان حضرات کی فہم کے مطابق، نقطۂ نظر کا اختلاف پایا جانا بھی خارج از امکان نہیں۔ یہ تاثر اس قسم کی باتوں سے ملتا ہے جن میں سے کچھ ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:
محمد سہیل عمر(’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘): ’’علامہ کی شاعری کا بیشتر حصہ آج بھی پہلے کی طرح قابل قدر، فکرانگیز اور پُرتاثیر ہے جبکہ خطبات کا کچھ حصہ اب صرف تاریخی اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔‘‘(صفحہ ۱۱) ’’پہلا سوال جو اقبالیات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے، یہ ہو گا کہ اصل چیز اقبال کا شعر ہے یا خطبات! شاعری کو اولیت حاصل ہے یا خطبات کو؟ کیا خطبات ہمارے ادبی اور فکری سرمایے میں اسی جگہ کے مستحق ہیں جو شاعری کو حاصل ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ ضمنی سوالات کی پخ بھی لگی ہوئی ہے کہ خطبات کے مخاطب کون تھے؟ اس کے موضوعات چونکہ متعین اور تحریر فرمائشی تھی نیز وسائلِ مطالعہ و تحقیق ۱۹۲۰۔۱۹۲۸ تک محدود تھے، لہٰذا شاعری کے آزاد، پائدار اور تخلیقی وسیلے کے مقابلے میں خطبات زمانے کے فکری اور سیاسی تقاضوں، معاشرتی عوامل، رجحانات، نفسیاتی ردعمل اور دیگر محرکات کے زیادہ اسیر ہیں ‘‘ (۱۲-۱۱) ’’یہاں ایک ضمنی سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا؟‘‘ (۱۲) ’’خطبات کے بعد علامہ لگ بھگ دس برس زندہ رہے اور مابعد کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں میں انہی موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہے جو خطبات سے متعلق تھے، لہذا خطوط اور مابعد خطبات کی شاعری کا تعلق خطبات سے طے کیے بغیر ہم علامہ کے پورے فکری تناظر میں خطبات کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے۔ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے، علامہ کا فکری ارتقا یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے، شاعری میں یا خطبات میں؟ بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا زیادہ ارتقایاب میڈیم کون سا ہے؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہو گا؟‘‘ (۱۳)وغیرہ۔
احمد جاوید (ملفوظات بعنوان ’’اقبالتصور زمان و مکاں پر ایک گفتگو‘‘، ضبط و ترتیب: طارق اقبال، ’’اقبالیات‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء): ’’اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، اور وہ یہ کہ ان کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔...بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں ان کا موقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ موقف کے الٹ ہے۔‘‘
پروفیسر محمد منور: ’’ہمیں تشکیلِ جدید [خطبات اقبال] کی روشنی میں دور مابعد کے مکتوبات، بیانات، خطبات اور تصریحات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔فکراقبال تشکیل جدید کے بعد ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔‘‘ (’’علامہ اقبال اور اصول حرکت‘‘، بحوالہ سہیل عمر، ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ ص ۱۵)
جہاں تک خطبات کے بعد اقبال کی طرف سے مختلف موضوعات پر اپنے موقف سے مفروضہ رجوع یا اس پرنظرثانی کا تعلق ہے، خرم علی شفیق نے مرزا منور، خالد جامعی، علامہ ندوی (یا چلیے ان کے راوی ڈاکٹر غلام محمد) وغیرہم کے مفروضات و دعاوی کا بڑی خوبی سے سدباب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبات کے بین الاقوامی ایڈیشن کے لیے متن کو اقبال نے خود حتمی شکل دی اور یہ ایڈیشن ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ ’’اگر رجوع وغیرہ کیا ہوتا تو اچھا موقع تھا کہ متن میں تبدیلی کرتے۔ انہوں نے لفظی ترامیم کے سوا کوئی تبدیلی نہ کی۔‘‘ اس سلسلے میں علامہ ندوی سے منسوب ایک بیان پر جس کا تعلق اقبال کے چھٹے خطبے میں شاہ ولی کی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ سے ایک عبارت کا حوالہ دینے سے ہے، خرم علی شفیق نے خاصی قائل کن بحث کی ہے۔ ان کے پیش کیے ہوے حقائق کا اطلاق اسی عبارت کے سلسلے میں سہیل عمر کے اس موقف پر بھی ہوتا ہے جو ان کی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ کے ضمیمہ ۳ کے طور پر شامل مضمون ’’سزا یا ناسزا‘‘ میں سامنے آتا ہے۔ اس مضمون کے بارے میں قدرے تفصیل سے آگے بات ہوگی۔
لیکن ان تحریروں سے جن کے اقتباسات اوپر پیش کیے گئے، اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا کہ جب اقبال کے بےشمار پڑھنے والوں کو خطبات اور شاعری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا یا ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا ضروری محسوس نہیں ہوتا تو پھر اکیڈمی کے کارپردازان کو اس سلسلے میں بےتابی کیوں ہے۔غور کرنے پر یہ اندازہ کرنا ممکن ہے کہ خطبات میں اقبال کا اختیارکردہ موقف بیشتر مقامات پر ان حضرات کے سیاسی خیالات سے اسی طرح متصادم ہے جس طرح مذہب کی اس مخصوص (’’روایتی‘‘) تعبیر سے جس پر یہ حضرات عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان محترم ومقتدر ہستیوں کا سیاسی اور مذہبی نقطۂ نظر اپنی جگہ، لیکن اس سے یہ کیونکر لازم آیا کہ اقبال کے فکری اور فنی سرمائے کو صرف و محض اسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور جہاں کہیں دونوں میں اختلاف پایا جائے وہاں یا تو کسی تاویل کی مدد سے اقبال کے نقطۂ نظر کو جوں توں قابلِ قبول بنایا جائے (یعنی تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے) یا جہاں ایسا کرنا ممکن نہ دکھائی دے وہاں کسی اور ترکیب سے اقبال اکیڈمی کے موقف کو اقبال کے موقف پر فوقیت دی جائے؟



۴
سہیل عمر کی تصنیف ’’خطباتِ اقبال نئے تناظر میں‘‘ ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے ’’خطبات اقبال‘‘ کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے:
(۱) پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے:
’’علامہ کے مخاطبین دوگونہ مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انہی مقولات (Categories) کے آشنا یا انہی مقولات کے قائل تھے جو حسّیت پرستی (Empiricism) کے عملی پس منظر نے انہیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرۂ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔‘‘ (ص۲۳)
[یہاں میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ Empiricism کا ترجمہ ’’حسیت پرستی‘‘ محلِ نظر ہے اور اس طرزِ تحقیق پر ایک خاص طرح کا اخلاقی حکم لگانے کا قرینہ ہے جس کا قطعی جواز نہیں۔ ایک اور جگہ، صفحہ ۲۸ پر، وہ اسی اصطلاح کا زیادہ مانوس اور درست ترجمہ ’’تجربیت ‘‘ کرتے ہیں۔ اس دورنگی کی مذکورہ تصنیف میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔]
’’علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔‘‘ (۴۳) ’’وہ وحی کے روایتی معنوں میں قائل نہیں ہیں اور جدید علوم کے تحت تشکیل پانے والے ذہن کے نمائندہ ہیں۔‘‘ (۴۸) ’’علامہ کے مخاطبین...اس معروضی اقلیمِ ربانی کے بارے میں طبقۂ متشککین سے تعلق رکھتے تھے...‘‘ (ص۵۳-۵۴)
صفحہ ۹۵ پر انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اقبال ’’مخالف اور متشکک سامعین سے خطاب‘‘ کر رہے تھے۔
ان نہایت سنگین مفروضات (بلکہ الزامات) کے سلسلے میں کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی اور نہ کہیں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کے خطبات کے سامعین کے بارے میں ان معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سہیل عمر نے دو مقامات پر خود اقبال کا درجِ ذیل بیان اقتباس کیا ہے، جس سے مذکورہ بالا مفروضات کی کسی بھی طرح تصدیق نہیں ہوتی۔ (صفحہ ۱۰ پر یہ اقتباس پیش کرتے ہوے وہ کہتے ہیں کہ ’’علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھیے۔‘‘ مفروضے کی سنگینی کا تقاضا تھا کہ ان ’’متعدد‘‘ بیانات کو سامنے لایا جاتا اور ان سے تشفی بخش شہادت حاصل کی جاتی کہ واقعی اقبال اپنے مخاطبین کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔ اگر یہ واقعی ان متعدد بیانات کا نمائندہ اقتباس ہے تو اس سے اس کی ہرگز وضاحت نہیں ہوتی۔) صفحہ ۲۲ پر دوبارہ اسی اقتباس کو پیش کرتے ہوے سہیل عمر نے اپنی طرف سے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اقبال کے مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ (گویا ذہنی امراض!) سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ بہرکیف، اقبال کے بیان کا پیش کردہ اقتباس دیکھیے:
’’ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔‘‘
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے خطبات کے ان مخاطبین کے بارے میں اس قسم کی کوئی منفی رائے نہیں رکھتے جیسی سہیل عمر رکھتے ہیں، اور وہ ان تعلیم یافتہ مسلمانوں کی خواہش کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس موضوع پر اپنے تجزیے کو خطبات کی صورت میں تحریر کر کے ان کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ دانشِ حاضر سے روشنی پانے والے ان جدید مسلمانوں کے اس خیال کو بھی قابلِ قبول پاتے ہیں کہ اس موضوع پر ’’پرانے تخیلات‘‘ (گویا مذہبِ اسلام کی اس سے پہلے کی، یا روایتی، تعبیروں) میں خامیوں کا ہونا ممکن ہے، اور ان خامیوں کو رفع کیا جانا چاہیے۔
سہیل عمر نے اس بات کے حق میں کسی قسم کی کوئی دلیل یا شہادت پیش نہیں کی کہ اقبال کے خطبات کے ان سامعین کو کس بنا پر اقبال کے ’’مخالف‘‘ نقطۂ نظر کا حامل سمجھا جائے۔ انھوں نے اقبال کا ایک اور بیان ان کی اپنی ’’افتادِ طبع‘‘ کے بارے میں صفحہ ۲۲ پر پیش کیا ہے۔ (جس شے کو انھوں نے خطبات کے سامعین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ — گویا ذہنی امراض قرار دیا تھا وہی شے اقبال کے معاملے میں ان کی ’’افتادِ طبع‘‘ — گویا مجبوریکے طور پر پیش کی گئی ہے۔ اگر دونوں مقامات پر ان اصطلاحوں کو ’’نقطۂ نظر‘‘ سے بدل دیا جائے تو وہ تضاد یا تخالف غائب ہو جاتا ہے جسے سہیل عمر ان دونوں اقتباسات میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔) اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوے اقبال کہتے ہیں:
’’میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔‘‘
اقبال کا یہ بیان ان خطبات میں ان کے طرزِاستدلال کو سمجھنے کی بہت اہم کلید فراہم کرتا ہے۔ اس بیان میں اس امر پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں پائی جاتی کہ وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں؛ وہ اسے ایک جائز طریق کار (یا منہاج) سمجھتے ہیں۔’’دانستہ یا نادانستہ‘‘ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اقبال کے ان دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ غیرمبہم طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ان کا نقطۂ نظر وہی ہے جو ان کے خیال میں ان کے مخاطبین کا ہے، اور اسی بنا پر خطبات اقبال کی ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کی فکری سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطبات کی تکمیل کے بعد کی پوری زندگی میں اقبال کے قول اور عمل سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ اپنے ان خطبات کو اپنا ایک اہم اور بنیادی کام سمجھتے رہے اور ان خطبات کے مشمولات یا طرزاستدلال میں انھوں نے کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ کی؛ اپنی وفات سے چار برس پہلے ان خطبات کا دوسرا، بین الاقوامی ایڈیشن مرتب کرتے ہوے بھی نہیں۔
(۲) سہیل عمر کے تجزیے کا دوسرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ اقبال اپنے مخاطبین کو اپنے مخالف نقطۂ نظر کا حامل سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے ان کے ’’ذہنی مسائل‘‘، ’’اشکالات اور فکری الجھنوں‘‘، ’’استعداد و افتادِ فکر‘‘ وغیرہ کی رعایت کرتے ہوے ، استدلال کی غرض سے وہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے جو سہیل عمر کی رائے میں اقبال کے اپنے نقطۂ نظر سے مختلف بلکہ کہیں کہیں تو اس کی عین ضد ہے۔ سہیل عمر ’’مصلحتِ وقت‘‘ کو اقبال کے اس مفروضہ طریق کار کی اس کی ایک اور وجہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا مفروضہ ہے اور سہیل عمر کی تصنیف کے متن کی حد تک کسی قسم کی بنیاد سے قطعی عاری ہے۔ انھوں نے اس کے حق میں کوئی دلیل یا شہادت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا؛ اقبال کا کوئی بیان ایسا نہیں پیش کیا جس سے اس مفروضے کا خفیف ترین جواز بھی نکل سکتا ہو۔ اس نہایت سنگین سقم کے ہوتے ہوے اسے اقبال کے بارے میں سہیل عمر کی بہت بڑی، اور بلاجواز، جسارت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس مفروضے کے تحت اپنی زیرِنظر تصنیف میں ان کا تجزیاتی طریق کار کچھ اس قسم کا دکھائی دیتا ہے: (الف) وہ اقبال کے خطبے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں، اور اس کے بعد اس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ (ب) جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطبے کے اقتباس میں سائنس، فلسفے یا مذہب کے زیربحث قضیے کی بابت ظاہر کیا گیا موقف خود سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے مختلف (بہت سے موقعوں پر متضاد) ہے تو وہ اپنے ہی قائم کردہ بلاجواز مفروضے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوے کہتے ہیں کہ دراصل اقبال کا اپنا نقطۂ نظر وہی تھا جو خود سہیل عمر کا ہے، اور مذکورہ اقتباس میں پیش کردہ موقف انھوں نے صرف ’’مصلحتِ وقت‘‘ یا مخاطبین کے ’’ذہنی مسائل‘‘ کی رعایت سے اختیار کیا تھا۔ سہیل عمر کا یہ طریق کار اس قدر ناقص، غیراطمینان بخش اور افسوسناک ہے کہ اسے درست یا جائز تسلیم کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ کچھ اس طرح کی بات ہے جیسے کہا جائے کہ اقبال سہیل عمر کے نقطۂ نظر کی موافقت میں دن کو سیاہ سمجھتے تھے، لیکن چونکہ ان کے مخاطبین ’’خوگرِ محسوس‘‘ ہونے کی وجہ سے یا مغربی تعلیم پانے کے باعث دن کو روشن دیکھنے کے عادی تھے، اس لیے اقبال نے مصلحت سے کام لیتے ہوے اپنے خطبے میں دن کو سفید قرار دے دیا۔ اب ہمیں چاہیے کہ خطبات میں جہاں جہاں دن کی صفت کے طور پر سفید کا لفظ آئے، اسے سیاہ سمجھیں۔
خطبات اقبال اور ان کے بارے میں اقبال کے قول و عمل سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کی نسبت ایسے معاملے میں جو ان کے فکری اور جذباتی وجود کے لیے اس قدر قریبی اہمیت رکھتا تھا، کسی قسم کی مصلحت پسندی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح انھیں مخاطبین کے کسی قسم کے ذہنی و نفسیاتی مسائل کے سلسلے میں ان کو تسکین پہنچانے کی قطعی کوئی مجبوری لاحق نہ تھی۔ اس کے برعکس، وہ اپنے اس فکری عمل میں ان لوگوں کو شریک کرنا چاہتے تھے جو ان کا خیال تھا کہ اس شرکت کی اہلیت اور علمی تیاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہی:
’’مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردوخواں دنیا کو شاید اس سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے (یا سننے والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیرچارہ نہ تھا۔‘‘(ص۲۲)
اردوخواں دنیا کو فائدہ نہ پہنچنے کی وجہ یہ نہیں کہ اردوخواں لوگ ان ’’ذہنی مسائل‘‘ سے آزاد ہیں جو سہیل عمر کے خیال میں اقبال کے مخاطبین کو لاحق ہیں؛ اس واضح بیان کی روشنی میں، وجہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک یہ لوگ، مغربی فلسفے کے پس منظر سے ناواقف ہونے کے باعث، ان مباحث کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جن پر ان خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔
(۳) سہیل عمر کے تجزیے کا تیسرا بنیادی مفروضہ وہ ہے جسے انھوں نے صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ڈاکٹر ظفرالحسن، کے اس خطبۂ صدارت سے اخذ کیا ہے جو اقبال کے چھ خطبات کے سلسلے کے اختتام پر پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا خیال ہے کہ (الف) اقبال نے جو کام کیا ہے وہ ’’اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیلِ نو یا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق‘‘ کا کام ہے۔ (ب) علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے، اور (ج) ڈاکٹر صاحب سرسید کے ’’اصول تفسیر اور دیگر تحریروں‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علم کلام کا یہ مقصد دو طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے، اور اقبال کا اختیارکردہ طریقہ یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ’’مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔‘‘ سہیل عمر اقبال کے اس مفروضہ طور پر اختیارکردہ طریق کار کو ’’اصول تطبیق‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خطبات کے مباحث کو ڈاکٹر ظفرالحسن کی اسی رائے کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے یا دیکھا جانا چاہیے۔ کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیارکردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔‘‘ (ص۲۱) مزید یہ کہ: ’’ہم یہ دیکھیں گے کہ اصول تطبیق کو مطمحِ نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر علامہ نے یہ کام کیسے انجام دیا۔‘‘ (ص۳۷)
خطبات اقبال اپنے موضوع پر اتنا بنیادی نوعیت کا کام ہے اور اپنے محتاط اور کہیں کہیں پیچیدہ طرزِتحقیق و استدلال کے اعتبار سے اتنا عمیق کہ اسے مختلف زاویہ ہاے نگاہ سے پڑھا اور پرکھا جانا ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا اختیارکردہ زاویۂ نظر بلاشبہ خطبات کے مطالعے کا ایک جائزطریقہ ہے لیکن واحد یا اہم ترین یا دیگر تمام طریقوں کو کالعدم کر دینے والا طریقہ ہرگز نہیں۔ سہیل عمر نے اپنی تصنیف میں اسی زاویۂ نظر کو اختیار کیا ہے، جو بلاشبہ ان کا حق تھا، لیکن وہ اسے قولِ فیصل یا حرفِ آخر کے طور پر پیش کرتے معلوم ہوتے ہیں اور پڑھنے والے کے لیے اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالحسن نے یہ خطبۂ صدارت اقبال کی موجودگی میں دیا تھا۔ اگر اقبال نے اس موقعے پر یا بعد میں ان کے بیان کردہ زاویۂ نگاہ کی اپنے کسی بیان میں تائید کی ہو تو میں اس سے لاعلم ہوں۔ سہیل عمر نے بھی ایسا کوئی بیان پیش نہیں کیا جس سے اس کی بابت اقبال کی پسندیدگی یا ترجیح ظاہر ہوتی ہو۔ سہیل عمر کا کہنا ہے کہ اقبال نے ’’ اصول تطبیق کو مطمحِ نظر‘‘ اور ’’ مقولاتِ مسلمہ کو بنیاد‘‘ بنایا تھا، اور یہ دعویٰ دلیل یا شہادت کا محتاج ہے، جو فراہم نہیں کی گئی۔ اور جب اقبال کے اپنے بیانات اس زاویۂ نظر کی تردید کرتے دکھائی دیں تو اسے تسلیم کرنا اور بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
اقبال ان خطبات میں کیا کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا بیان قطعی غیرمبہم ہے: وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے مغربی فلسفے کا۔ اور میری رائے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کا یہ طریق کارمذکورہ اصول تطبیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید مغربی تعلیم سے روشنی پایا ہوا ذہن (جو خود اقبال کا ذہن ہے اور ان کے مخاطبین کا بھی) مذہب اسلام کے حقائق کو کس طرح سمجھ سکتا ہے، اور کیا اس جدید ذہن میں مذہب کے لیے گنجائش موجود ہے۔ خطبات میں زیربحث آنے والے پیچیدہ سوالات سے نبردآزما ہو کر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغربی فلسفے کی روشنی میں مذہب اسلام کو سمجھنا اور ماننا قطعی ممکن ہے۔ ان کا استدلال متعدد مقامات پر ’’پرانے تخیلات‘‘سے متصادم ہے، اور ایسا ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ ان ’’پرانے تخیلات‘‘سے، ان کی ممکنہ خامیوں کے باعث،غیرمطمئن ہونے کے احساس ہی کے نتیجے میں اقبال کو حقائق اسلام کا جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
خود سہیل عمر بھی خطبات میں پیش کیے ہوے استدلال کا تجزیہ کرتے ہوے اسے متعدد مقامات پر مذہب کے روایتی تصور (بقولِ اقبال ’’پرانے تخیلات‘‘) سے مختلف یا متصادم پاتے ہیں۔ اس کا اظہار سہیل عمر کئی مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، مثلاً: ’’مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبدأ سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘ (ص۸۷) ’’شعورِ مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہٰذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہیے۔ یہاں فکراستدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے۔‘‘(ص۸۸-۸۹) ’’یہ نکتہ اﷲ کے علم پر ایک تحدید عائد کرتا ہے اور شعور مذہبی اسے قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ (ص۹۱) ’’اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دعا کی معنویت اور جواز کا مندرجہ بالا بیان کس حد تک ہمیں اس تصور کے قریب لے جاتا ہے جو قرآن اور آثار نبوی سے ملتا ہے۔...اس ضمن میں پہلا فرق تو یہ نظر آتا ہے کہ اگرچہ عبادت و دعا کا دینی مفہوم بھی نتائجیت کا پہلو لیے ہوئے ہے تاہم اس کی عملی تاثیر اور نتائج اخروی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے نتائجیت کے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے اور... [قرآن کے] نصوص سے عبادت کے مقصود کا جو تصور ابھرتا ہے [اسے] مصلحتاً اجاگر نہیں کیا۔‘‘ (ص۹۵) ’’...وحی کے بارے میں قرآن میں جو نصوص ملتی ہیں ان سے بھی وحی کے معروضی، موجود فی الخارج اور ماوراء طبیعی ہونے ہی کا مفہوم ملتا ہے۔ ان کے مقابلے میں علامہ کے الفاظ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ اسے سابقہ مقامات کی طرح سامعین کی رعایت کے لیے قریب الفہم اصطلاح کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ ان کے سامعین حیاتیاتی علوم، سائنسی تصور اور جغرافیائی احوال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی اس ذہنی افتاد اور عملی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت خطاب اور مصلحت تفہیم کی خاطر یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔‘‘ (ص۱۳۸) ’’شعورِ مذہبی‘‘ کے علاوہ سہیل عمر کے بیان میں ان کے روایتی اور اقبال کے غیرروایتی نقطۂ نظر کا فرق جابجا’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ جیسے لفظوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
یہی ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘، نیز ’’شعورمذہبی‘‘ سے اختلاف یا تصادم وغیرہ کے ذہنی مسائل ہیں جن کے سبب مثلاً احمد جاوید، نائب ناظم اقبال اکیڈمی، کو اقبال کے بعض بیانات نقل کرتے وقت ’’نعوذباﷲ‘‘ کہنا پڑتا ہے (موصوف کے کمالات کا قدرے تفصیلی ذکر آنے کو ہے)، اور انھی مسائل کا اظہار روایتی تصورِمذہب کے حامل علما نے اقبال کی زندگی میں اور مابعد اپنی برافروختگی اور فتویٰ پردازی کی شکل میں کیا۔ ’’جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳ میں خطبات اقبال پر جو تبصرے ڈاکٹر غلام محمد کی زبانی روایت کی سند پر علامہ ندوی سے منسوب کیے گئے، ان میں بھی یہی باتیں زیادہ غیرمصلحت بیں اور دوٹوک انداز سے کہی گئی ہیں۔ خرم علی شفیق نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ اس قسم کے قدامت پرست ردعمل نے اقبال کو آخر تک تشویش میں مبتلا نہیں کیا اور وہ کسی بھی موقعے پر خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوے تھے۔ سہیل عمر چونکہ ان حضرات کے برخلاف، بوجوہ، اقبال کے خیالات کی بابت نسبتاً نرم رویہ رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے تاویل کی یہ انوکھی راہ نکالی کہ اقبال کو اپنے بیان کردہ طرزِاستدلال سے پیدا ہونے والے ’’اشکالات‘‘، ’’خطرات‘‘، ’’خدشات‘‘ وغیرہ کا بخوبی احساس تھا، لیکن مصلحتِ وقت کے تقاضے اور مخاطبین کے ذہنی مسائل کے لحاظ نے انھیں یہ طرزِاستدلال اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ سہیل عمر کی نیک نیتی اور تاویل کا انوکھاپن اپنی جگہ، لیکن کسی دلیل کی غیرموجودگی میں اسے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔



No comments:

Post a Comment