Sunday, May 10, 2015

اقبال شناسی یا اقبال تراشی ۔۔ ۳

۷
’’خطبات اقبال‘‘ پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیبِ استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیں وہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘،شمارہ ۱۴، صفحہ۲۶)
نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہِ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم، کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگو حضرات کے سابق پیرومرشد محمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفسِ مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔ اس گفتگو کو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔) معلوم ہوتا ہے بےتکان زبانی گفتگو نے احمد جاوید کے اظہارِ ذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اقبال اکیڈمی کے جریدے ’’اقبالیات‘‘ میں احمد جاوید کے ملفوظات شائع کیے جاتے ہیں۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں یہ ملفوظات ’’اقبالتصورزمان ومکاں پر ایک گفتگو‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں اور ان کے ’’ضبط و ترتیب‘‘ کا سہرا کسی طارق اقبال کے سر باندھا گیا ہے جو یا تو اکیڈمی میں نائب ناظم کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بندگی بیچارگی کے شکار ہوں گے یا پھر موصوف کے مریدوں میں شامل ہوں گے، جن کی تعداد میں اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب سے انھوں نے ٹیلی وژن کے ایک تجارتی چینل پر وعظ فروشی کا دلچسپ مشغلہ اختیار کیا ہے۔ (یہ مشغلہ علمائے حق کے اس واضح فیصلے کے باوجود اختیار کیا گیا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھنا اور اس پر جلوہ افروز ہونا قطعی حرام ہے، اور اس مشغلے سے ہونے والی آمدنی رزقِ حرام کی تعریف میں آتی ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل۔‘‘) قدرت اﷲ شہاب کے مبینہ خلیفہ اشفاق احمد کے گزر جانے کے بعد ٹیلی وژن کے مہااُپدیشک کی یہ پُول (slot) خالی پڑی تھی، جس میں نائب ناظم نے خود کو بخوبی دھانس لیا (جاے خالی را دیو می گیرد) تاکہ انٹرٹینمنٹ کے رسیا ناظرین کی لذت اندوزی کے تسلسل میں خلل نہ پڑے۔ ان مواعظ کے درمیان واقع ہونے والے تجارتی وقفوں میں ناظرین کو دیگر فروختنی اشیا خریدنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ خیر، جب انٹرٹینر اور انٹرٹینڈ دونوں فریق اس سودے سے خوش ہیں تو ہمارا آپ کا کیا جاتا ہے۔ رہا نائب ناظم موصوف کا ایمان، تو اس کاذکر ہی کیا، رہا رہا نہ رہا نہ رہا۔
اوپر کے اقتباس کی روشنی میں عسکری اور اقبال کی مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ احمد جاوید جس موضوع کو ’’غیرعلمی انداز‘‘ کا حامل خیال فرماتے ہیں اس پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کم و بیش ہر موضوع پر صادق آتی ہے۔ اس طرزعمل کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ ملفوظات کا متن شائع ہونے پر کوئی اعتراض سامنے آئے تو صاحب ملفوظات بڑی آسانی اور بےنیازی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو زبانی گفتگو تھی جو کسی تیاری اور حوالوں کی موجودگی کے بغیر کی گئی تھی، اور اسے اسی طرح پڑھا جانا چاہیے جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس امر کی حکمت بہت سے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مناسب تیاری کے ساتھ معروف تحقیقی اسلوب میں اظہار خیال سے اجتناب کیوں ضروری ہے۔
اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دانش و علّامگی کا فی البدیہہ وفور اس قدر منھ زور ہے کہ کاغذ اور قلم اس کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ پھر موصوف کی پاٹ دار آواز اور پاٹےخانی لہجہ خود ان کے کانوں کواس قدر بھانے لگا ہے کہ نالے کو ذرا دیر کے لیے بھی سینے میں تھامنا ان کے لیے قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔ (گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوشِ گفتگو۔) علاوہ ازیں اس سے اپنی ذات کے بارے میں موصوف کے فرضی تصور کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی اونچی جگہ پر بیٹھے فانی انسانوں کے اشکالات کو اپنی بےمہار گفتگو سے رفع کیے چلے جا رہے ہیں۔ (بقول اقبال: اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی۔) اپنے اس تصور کی غمازی ان کے فقروں میں اختیارکردہ لہجے سے جابجا ہوا کرتی ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ ’’اقبالیات‘‘ کے محولہ بالا شمارے میں ’’استفسارات‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے جس میں علامہ احمد جاوید کے سامعین اقبال کی شاعری کے بارے میں اپنے استفسارات و اشکالات پیش کرتے ہیں اور پھر موصوف کے جوابات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (حسنِ اتفاق سے طارق اقبال اپنے تہہ کیے ہوے زانوے تلمّذ، یا بقول یوسفی زانوے تلذّذ، کے ساتھ یہاں بھی موجود ہیں۔) ذیل کی مثالیں نائب ناظم کی گفتگو پر مبنی اسی متن سے لی گئی ہیں: ’’یہ سوال اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کے ذریعے سے شعرفہمی کے بعض ضروری قاعدے سامنے آ جائیں گے۔ کچھ باتیں نمبروار عرض کی جا رہی ہیں، ان پر غور فرمالیں، تو یہ مسئلہ بلکہ اس طرح کے دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ (ص۲۴۰) ’’آئیے آپ کے اشکالات کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ ( ۲۴۳) ’’اقبالیات‘‘ کے اسی شمارے میں نائب ناظم نے اقبال کے ایک شارح خواجہ محمد ذکریا کی ’’تفہیم بال جبریل‘‘کی ’’اغلاط اور نقائص‘‘ پر گرفت اور خواجہ صاحب کے مفروضہ اشکالات کو رفع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ لہجہ بدستور پاٹے خان سے مستعارہے: ’’پہلے خواجہ صاحب کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتر اس کے اس عمل کا باقاعدہ آغاز کیا جائے، مناسب ہو گا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح و تفہیم کے اصول و آداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔‘‘ (ص ۱۴۵) ’’امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے...‘‘ (ص۱۶۷)۔ وغیرہ۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لہجہ صرف پروفیسر خواجہ محمد ذکریا اور طارق اقبال جیسے لوگوں کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ باعثِ تخلیقِ اقبال اکیڈمییعنی اقبال کا بھی ذکر ہو تو اندازِ گفتگو ویسا ہی مربیانہ ، بلکہ سرپرستانہ رہتا ہے۔ موصوف اپنے ملفوظات میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’سرِدست ہم اپنی توجہ اسی نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور جہاں تک کیوں کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔‘‘ (ص۱۰۶) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے، ’’پیام مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بےاصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے...‘‘ (ص۱۵۹-۱۶۰) بال جبریل کی غزل کے شعر (اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی/ خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا) کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’میں خود اس شعر کی تشریح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابل اعتراض لگتا ہے۔...اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے جو میں نے نعوذباﷲ پڑھ کر لکھا۔‘‘ (ص۱۵۸) بال جبریل ہی کی ایک اور غزل کے شعر (باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں/ کارجہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر) کے متعلق فرماتے ہیں: ’’...یا تو خدا کو انتظار کروانے والی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا...‘‘ (ص۱۶۹) یوں تو نائب ناظم کی گفتگو غیرارادی مزاح کے نمونوں سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اٹی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اس شعر کے ذکر میں انھوں نے دانستہ مزاح پیدا کرنے کی بھی کوشش فرمائی ہے: ’’‘کارِجہاں کی درازی کاوہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاندرات کو خیّاطوں کے ذہن پر چھایا ہوتا ہے...‘‘ (ص۱۶۹) اسی غزل کے ایک اور شعر (روزِحساب جب مرا، پیش ہو دفترِ عمل/ آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر) پر اپنے مچان کی اونچائی سے خواجہ ذکریا کو ڈپٹتے ہوے فرماتے ہیں: ’’ کا ندامت محسوس کرنا کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آ سکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میں کچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔‘‘ (ص۱۷۰)
محمد حسین آزاد کے اسلوب میں کہا جائے تو احمد جاوید کا پیشہ خوداطمینانی ہے اور تعلّی و مشیخت سے اسے رونق دیتے ہیں۔ انا کے گیس بھرے غبارے کا دھاگا چٹکی میں تھام کر وہ جس اونچائی پر جا پہنچے ہیں وہ انھیں فلکِ ہشتم معلوم ہوتی ہے جہاں سے پروفیسر ذکریا، محمد حسن عسکری، مبین مرزا، صابر وسیم اور باقی سب بندگانِ خدا انھیں حشرات الارض سے بیش دکھائی نہیں دیتے۔ (بقولِ اقبال،’’زیروبالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے‘‘ اور ’’غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو/ کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے‘‘۔) حد تو یہ ہے کہ اقبال سے بھی وہ یوں خطاب فرماتے ہیں جیسے طارق اقبال سے مخاطب ہوں۔ اب نائب ناظم کو یہ تنبیہ کرنا تو ان کے پیرومرشد کا فرض ہے کہ صاحبزادے، نیچے اتر آئیے، گر پڑے تو خواہ مخواہ پاؤں میں موچ آ جائے گی۔ لیکن اُن حضرت نے اِنھیں ٹی وی پر اداکاری کرنے کے فعلِ حرام سے نہ روکا تو ان سے اپنے برخودغلط مرید کی بہی خواہی کی بھلا کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ کیاعجب کہ احمد جاوید کے ہاتھوں ان کے سابق پیرومرشد عسکری کی درگت دیکھ کر انھوں نے موصوف کو نصیحت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو، کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے پہنچے ہوے مرید کی طرح یہی رائے رکھتے ہوں کہ اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم کا درجہ (نعوذباﷲ) اقبال سے بڑھ کر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ’’احیائے علوم‘‘ کے شمارہ ۱۴اور ’’اقبالیات‘‘ کے جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شامل احمد جاوید کے فرمودات پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ اکیڈمی کا دستورِ زباں بندی اقبال کو اسی حد تک اپنی بات کہنے کی آزادی دیتا ہے جہاں تک وہ اکیڈمی کے کارپردازان سے متفق ہوں۔ اس حد کو پار کرنے پر انھیں جلالی نائب ناظم کی جھڑکی سننی پڑتی ہے کہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی ہے، یا ان کا ’’شعر جس مضمون پر مبنی ہے وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔‘‘ (’’اقبالیات‘‘ ،ص ۱۷۱) گویا اقبال اکیڈمی نہ ہوئی عرفانی روایت اکیڈمی ہو گئی کہ اقبال کی نثرونظم کا جتنا حصہ نام نہاد عرفانی روایت سے باہر ہے وہ اکیڈمی کی اقبال شناسی کے دائرے سے بھی باہرر ہے گا۔ نائب ناظم اس سے بالکل بےنیاز ہیں کہ عرفانی روایت کی جس محدود، تنگ نظر اور متنازعہ فیہ تعریف کوانھوں نے اپنی بیعت کے نتیجے میں اپنی قید بنا رکھا ہے، اس کی پابندی کسی اور پر، یہاں تک کہ اقبال پر بھی لازم نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نائب ناظم کو اپنی ذاتی رائے، خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ، بےبنیاد اور اقبال دشمن کیوں نہ ہو، رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل نہیں؛ عبرت کا مقام تو یہ ہے کہ یہ بات زور دے کر کہنی پڑ رہی ہے کہ اقبال اکیڈمی کے تنخواہ دار عمّال کے مقابلے میں اقبال کو بھی تو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر اقبال شناسی کی اصطلاح کا وہی مطلب ہے جو اس کے لغوی معنوں سے سمجھ میں آتا ہے، تو یہ عمل اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ اپنے اردو اور فارسی کلام، خطبات، اور دیگر تحریروں میں اقبال نے اپنا جو ’’نرا فکری‘‘ اور ’’نرا شاعرانہ‘‘ اظہار کیا ہے، اسے اس کے درست پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے ، اور اس پر ریاست کی پالیسی یا نائب ناظم وغیرہ کے تنگ نظر، دقیانوسی اور قطعی غیرمتفق علیہ مذہبی و سیاسی نظریے کو ٹھونسنے کی کوشش سے باز رہا جائے۔ دوسری صورت میں اس عمل کے لیے اقبال شناسی کے بجاے اقبال تراشی کی اصطلاح زیادہ موزوں ہو گی۔
احمد جاوید اپنی ایک خِلقی معصومیت کے باعث بھی اقبال کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ حقائق کو دریافت کرنے، گہرائی میں جاننے اور درست تناظر میں سمجھنے کی جو تڑپ اور جستجو اقبال کی تمام تحریروں میں، بشمول شاعری اور خطبات، نمایاں طور پر پائی جاتی ہے، وہ موصوف کو بالکل اسی طرح کورا چھوڑ دیتی ہے جیسے مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر رہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انھیں تجسّس کی خصوصیت سے منزّہ پیدا کیا گیا ہے۔ (بقول اقبال، ’’دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں/ جستجوئے رازِ قدرت کا شناسا تو نہیں‘‘۔) ان کے خیال میں نام نہاد عرفانی روایت میں ہر چیز کا جواب پہلے سے فراہم کر دیا گیا ہے اور تمام حقائق گویا لفافوں میں بند موصوف کے سامنے سلیقے سے چنے ہوے رکھے ہیں۔ جب کبھی کوئی سوال (یا نائب ناظم کی مرغوب اصطلاح میں ’’اشکال‘‘) سر اٹھاتا ہے، موصوف فال نکالنے والے طوطے کی سی مستعدی سے متعلقہ لفافے تک پہنچتے ہیں اور اسے کھول کر نہایت خوداطمینانی کے ساتھ اقبال (یا طارق اقبال) کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں کہ زیربحث شعر یا قول سے بذریعۂ تاویل یہ نکتہ متبادر ہوتا ہے کہ سوئی کی نوک پر ڈھائی فرشتے بیٹھ سکتے ہیں جبکہ عرفانی لفافے میں پونے تین کی تعداد لکھی ہوئی آئی ہے، چنانچہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی، مگر نہ اتنی شدید کہ... وعلیٰ ہذا لقیاس۔ نہ صرف یہ حکم لگانا نائب ناظم کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ اقبال کا کون سا ’’نرا شاعرانہ‘‘ مضمون، یا خطبات وغیرہ میں بیان کردہ ’’نرا خطیبانہ‘‘ موقف، نام نہاد عرفانی روایت کے اندر یا باہر ہے، بلکہ یہ فیصلہ بھی وہ چٹکی بجاتے میں کر دیتے ہیں کہ اس کا تعلق حقیقت کے مروجہ عرفانی درجوں میں سے کس درجے سے ہے اور اس کی روشنی میں اقبال وغیرہ کے اعتقادات قابل قبول قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ ایسا جنّاتی ’’منہاج‘‘ رکھنے والے نائب ناظم سے یہ توقع کرنا نادانی ہو گی کہ وہ لفافوں کے حلقے سے باہر نکل کر اقبال کے فکری اور شاعرانہ کارنامے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بنیاد ہی اقبال کے وجود کی یہ بےقراری تھی کہ وہ بنے بنائے فرسودہ جوابی لفافوں (یا ’’پرانے تخیلات‘‘) کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اپنے عہد کے بڑے سوالوں سے نبردآزما ہو کر ان کے تخلیقی جواب وضع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس عمل میں انھیں بہت سے لکیرالدین فقیروں کے اعتراضات اور فتووں وغیرہ کا بارہا سامنا ہوا، جنھیں اقبال نے کبھی اہمیت نہ دی۔ احمد جاوید، ہماری آپ کی بدقسمتی سے، نائب اقبال شناس کے سرکاری عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، لیکن ان کا اصل مقام انھی معترضین اور فتویٰ پردازوں کے درمیان ہے جو اقبال کی زندگی میں بھی اپنے فضول کام میں لگے رہے اور بعد کے دور میں بھی۔ ان حضرات کی سمجھ میں اقبال کی وہ سادہ سی بات آنے سے رہی جو انھوں نے اپنی نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں بیان کی ہے (اس نظم کا متن آگے پیش کیا جا رہا ہے) اور جسے کشورناہید نے اپنے لفظوں میں یوں کہا ہے کہ ریش مبارک کی لمبائی چوڑائی اور دبازت کا سخن فہمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
علامہ ندوی سے منسوب اعتراضات کا بزعم خود جواب دیتے ہوے، کئی مقامات پر احمد جاوید کا موقف معترض کے موقف کے نہایت قریب جا پہنچتا ہے، اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود دونوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ اقبال کی آزاد فکر کے بارے میں فیصلہ ’’پرانے تخیلات‘‘ ہی کے تنگ دائرے میں رہ کر صادر کرنا ہے۔ فکرِ اقبال کی رواں دواں آبجو کو اپنے تنگ خیال نقطۂ نظر کے لوٹے میں بند کرنے کی بےسود مگر پرجوش کوشش دونوں حضرات میں مشترک دکھائی دیتی ہے۔ نمونے کے طور پرعلامہ نائب ناظم کے چند ارشادات دیکھیے:
’’انھوں نے مغرب کو اسلام پر غالب نہیں کیا بلکہ اسلام کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ اسلام سے پیدا ہونے والی فکر مغرب کے اسلوب حصول سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گو کہ میری ذاتی رائے میں مذہبی فکر میں اس طرح کی تطبیق کا عمل ہمیشہ مضر ہوتا ہے اور اس کا ضرر خطبات اقبال میں بھی جابجا نظر آتا ہے ۔ جب ہم دو مختلف چیزوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں فریق ثانی یعنی جس سے تطبیق دینا مقصود ہے لامحالہ مرکزی اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسلام اور مغرب میں تالیف و تطبیق کا کوئی بھی عمل مغرب کی مرکزیت اور یک گو نہ فوقیت کے اثبات پر ختم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴،ص۱۰)
’’اپنے فلسفہ حرکت کے بیان میں اقبال جب خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس میں کئی الجھنیں سر اٹھاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی غلطی قاری کو یہاں تک نہیں پہنچاتی کہ وہ یہ باور کر سکے کہ اقبال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ معاذ اللہ خدا یعنی خالق بھی مسلسل تخلیق ہو رہا ہے۔‘‘(ص۱۱)
’’عصرِ حاضر میں زندگی کے تمام شعبوں میں رونما ہونے والے مظاہر ترقی کو حیات اجتماعی کی فلاح کے اسلامی اصول تک پہنچنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ اس عمل میں انہیں مغرب یا جدیدیت سے تصادم مول لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس کی وجہ سے کچھ ناہمواریاں تو یقیناً پیدا ہوتی ہوں گی لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ اقبال کے دینی افکار مغربی فلسفے سے ماخوذ ہیں یا انھوں نے مغربی خیالات کو اسلامی لباس پہنا دیا۔‘‘(ص۱۱)
’’جہاں تک اجتہادِ مطلق کا معاملہ ہے اس میں اقبال سے غلطی ہو ئی۔ اس غلطی کی شدت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ اقبال کے ہاں اجتہاد مطلق اپنے حالات کے موافق دین کو ایک بالکل نئی تعبیر دینے کے لیے ہوتا ہے۔ اقبال کے ہاں اجتہاد کا دائرہ محض قانونی امور پر محدود نہیں رہتا بلکہ شریعت کی ان قوتوں اور مصلحتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کی بنیاد پر مسلم تہذیب متشکل ہوتی ہے۔‘‘(ص۱۲)
’’اس پورے تصور [جمہوریت] میں فقط ایک چیز ایسی ہے جو محفوظ نہ رہے تو انتشار کا موجب بن سکتی ہے اور وہ ہے رائے دینے کی اہلیت، جس کا اثبات مخالف رائے رکھنے والا بھی کرے۔ اقبال نے اپنے اس خیال میں اس نقطے کو ملحوظ نہیں رکھا کہ یہاں محض عددی اکثریت کافی نہیں ہے بلکہ اصحاب الرائے کی اکثریت درکار ہے۔ جسے مرجوع قرار پانے والی اقلیت بھی رائے دینے کا اہل مانتی ہو۔‘‘ (ص۱۴)
’’ حرکت اور ارتقاء پر اقبال کا یقین بعض مواقع پر ایسی جذباتیت میں بدل جاتا ہے جو آدمی کو اپنی ہی بات سے برآمد ہونے والے فوری نتائج سے بھی غافل کر دیتی ہے حیاتیاتی ارتقاء اور تاریخی حرکت کے تصورات کو یک جان کر کے دین کی حقیقت کے بارے میں چند کلی نوعیت کے مفروضے وضع کر لینا ، اقبال کا مزاج تھا۔‘‘(ص۱۵)
’’اقبال کے اس قول میں کچھ خطرات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ ان سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (ص۱۵-۱۶)
’’دینی زندگی کمال وجامعیت کے منتہا پر ایمان (Faith) کی قدر اعلیٰ پر استوار ہوتی ہے۔ یہ استواری جب کمزور پڑنے لگتی ہے تو فکر (Thought) بنیادی قدر بن جاتی ہے فکر ایمان کو اپنی خلقی منطق کے مطابق جب تصور سازی اور تعقل کے عمل سے گزارنے میں عاجز ہو جاتی ہے تو یہ چند ان گھڑ تخیلات کی اساس پر ایک ایسا نظام محسوسات پیدا کر لیتی ہے جو حواس کے دائرہ فعلیت سے باہر نکل سکنے کا امکان باور کروا دیتی ہے۔ فکر تھک ہار کر تخیل بن جاتی ہے اور تخیل ظاہر ہے کہ محسوسات میں واقع ہونے والے التباس کا منبع ہے۔...گویا اقبال جس کو ترقی کہہ رہے ہیں وہ اصل میں ایمان کی دست برداری کا نام ہے۔ فکر اور تجربے کے حق میں ۔... اقبال کی پوری بات میں ایک اور خطرہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ وہ [کذا] ماہیت ذہن یعنی انفعال کو ایمان کے سائے سے نکال کر تجربیت کے تحت لانا پڑتا ہے۔‘‘ (ص۱۶)
’’علم نفسیات کے بعض غیرضروری اثرات کی وجہ سے اقبال نے نبی اور وحی کو بھی اپنے زمانے میں مروج نفسیاتی تجزیے کا موضوع بنا لیا اور اس اصول کو نظر انداز کر دیا کہ وحی کی تنزیل اور نبی کا اسے وصول کرنا کوئی تجربہ نہیں ہے بلکہ واقعہ ہے۔‘‘(ص۱۷)
’’اقبال کے یہاں Ego یا Selfکا تصور بعض اخلاقی اور نفسیاتی کمالات کے باوجود انسان اور خدا کے بارے میں ان مذہبی تصورات سے اصلاً متصادم ہے جن پر آج تک کی مذہبی فکر متفق چلی آ رہی ہے۔‘‘ (ص۱۸)
’’وہ [معترضِ اقبال] اگر یہ پوزیشن اختیار کرتے کہ مذہبی زندگی اور اس کے کمالات کی تحقیق کا یہ انداز خود دین کے متعین کردہ کمالات بندگی سے مختلف ہے اور اس سے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی دین داری کم تر درجے پر نظر آتی ہے، تو ایک بات بھی تھی۔‘‘(ص۱۹)
’’ان کا تصور انفرادیت بالکل غیرروایتی ہے اور ایک حد تک ان کے مطالعہ مغرب کا نتیجہ ہے۔ اقبال انسانی انفرادیت کے حدود میں ایسی رومانوی توسیع کر دیتے ہیں کہ بعض مقامات پر آدمی اور خدا کا امتیاز ایک رسمی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔‘‘(ص۲۱)
’’ان کا تصور خدا بہرحال لائق اعتبار نہیں ہے اور بعض ایسے نتائج تک پہنچا دیتا ہے جہاں خدا کو ماننا محض ایک تکلف لگتا ہے۔ علامہ کے نظام الوجود میں انسان مرکزی کا شور اتنا زیادہ ہے کہ خدا کی آواز دب جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا ہونا انسانی وجود کی تکمیل ایک ذریعہ ہے اور بس۔ ‘‘(ص۲۲)
’’ذاتِ الٰہی اور ذاتِ انسانی ، یا الوہی ذاتیت اور انسانی ذاتیت کے تقابل کی ہر جہت میں اقبال جن نتائج تک پہنچتے ہیں، وہ مابعد الطبیعیات کی منطق پر پورے نہیں اترتے۔ اور ان مباحث سے بننے والی فضا میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔...ذات یا انا کے مقولے کو مدار بنا کر اقبالؒ نے خدا اور انسان کے تقابل کی جو فضا ایجاد کی ہے اس میں انسان تو اپنی انفرادیت ثابت کر دیتا ہے لیکن خدا کی انفرادیت دب کر رہ جاتی ہے۔ ‘‘(ص۲۲)
’’مذہبی یا روحانی واردات میں نفس کی شمولیت سے جو حسی وفور پیدا ہو جاتا ہے ، اقبال اسے حقیقت کے علم یا تجربے کی قابل قبول اساس تصور کر لیتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کا انہماک یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ وہ حسی ، نفسی ،روحانی حسی کہ تنزیل وحی کے تجربے کو اصلاً ہم نوع قرار دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہماری رائے میں اس سنگین غلطی کا بڑا سبب ان کے تصور خودی میں پوشیدہ ہے۔ ‘‘(ص۲۴-۲۵)
’’ ’جنت و دوزخ احوال ہیں نہ کہ مقامات۔ ۔۔ اورحیات بعد الموت ہر انسان کا استحقاق نہیں ہے۔ ۔۔اقبال کے یہ تصورات ظاہر ہے کہ قرآنی محکمات سے متصادم ہیں۔‘‘ (ص۲۶)
ایک مقام پر تو نائب ناظم موصوف نے حد ہی کر دی۔ فرماتے ہیں:
’’یہاں ہم بھی مجبور ہیں کہ اقبال کی مدافعت کے ارادے کے باوجود ہاتھ کھڑے کر دیں۔‘‘(ص۲۲)
احمد جاوید کے مرشدِمعزول عسکری اگر زندہ ہوتے تو شاید اس قسم کا فقرہ چست کرتے کہ ’’ذرا آپ کو دیکھیے اور آپ کے ارادے کو دیکھیے!‘‘ لیکن خرم علی شفیق تو بحمدﷲ بقیدحیات ہیں اور کہہ ہی سکتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسا تاثر ملتا ہے گویا نائب ناظم کی مدافعت اقبال کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ شاعرِ مشرق کے مقام پر بھی ٹھہر نہ پاتے۔ خرم علی شفیق نے اس قسم کے طرزِعمل کی مثال کے طور پر لاہور کی مسجد وزیرخاں کے خطیب دیدار علی کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ’’اس میں اقبال کے خلاف ایسے دلائل پیش کیے جن کے بعد کم سے کم ایک عام مسلمان کی نظر میں اقبال کا ایمان مشکوک ہو جانا چاہیے تھا...نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اقبال کو اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی، خواص اور عوام نے خطیب دیدار علی صاحب ہی کو رد کر دیا۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، ص ۲۹) خود اقبال نے ان جانے پہچانے فتویٰ پرداز کرداروں کے بارے میں ایک پرلطف نظم ’’زُہد اور رندی‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جو ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے اور احمد جاوید پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ آئیے اس نظم کا ایک بار پھر لطف اٹھائیں:
اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی
شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی مَنشی کا
کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی
کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت
جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی
لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہہ میں کہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی
کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی
منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی
مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی
حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا
اقبال، کہ ہے قمریِ شمشادِ معانی
پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟
گو شعر میں ہے رشکِ کلیمِ ہمدانی
سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی
ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذراسا
تفضیلِ علی ہم نے سنی اس کی زبانی
سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی
کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی
گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی
لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے
بے داغ ہے مانندِسحر اس کی جوانی
مجموعۂ اضداد ہے، اقبال نہیں ہے
دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفقانی
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے
تادیر رہی آپ کی یہ نغزبیانی
اس شہر میں جو بات ہو، اڑ جاتی ہے سب میں
میں نے بھی سنی اپنے احباّ کی زبانی
اک دن جو سرِ راہ ملے حضرتِ زاہد
پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی
فرمایا، شکایت وہ محبت کے سبب تھی
تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی
میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے
یہ آپ کا حق تھا زرہِ قربِ مکانی
خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے
پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، وﷲ نہیں ہے


اس قسم کے مئے زہد سے سرشار اور دُردِ خیالِ ہمہ دانی سے معمور کرداروں کو پاکستانی ٹیکس گذاروں کے خرچ پر اقبال شناسی کی ذمے داری سونپ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے پریس برانچ کے چودھری محمد حسین کا ماہانہ وظیفہ عوامی خزانے سے باندھ کر انھیں منٹو شناسی پر مامور کر دیا جائے۔ لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقبال اکیڈمی کے عمّال کو جو کام دراصل سونپا گیا ہے وہ اقبال شناسی کا نہیں بلکہ اقبال تراشی کا ہے، یعنی یہ کہ کاٹ پیٹ کر انھیں ریاستی اور عرفانی روایت کے سانچے میں کچھ اس طرح فٹ کیا جائے کہ اقبال کے پاکستانی پڑھنے والے ان کی شاعری اور نثر کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اور یہی وہ سرکاری طور پر تراشا گیا بےضرراقبال ہے جس کی مدافعت کا ارادہ اکیڈمی کے نائب ناظم باندھتے اورکھولتے رہتے ہیں۔ سرکاری نوکری کی انھی نزاکتوں کا کرشمہ ہے کہ وہ اقبال کے خلاف اپنی مرغوب عرفانی روایت کی رو سے خاصے سنگین اور بنیادی نوعیت کے عتراضات کرنے کے باوجود، اور ان کے متعدد غیرمحتاط خیالات پر نعوذباﷲ، استغفرﷲ اور لاحول ولا پڑھتے رہنے کے باوجود، اقبال کے ایمان کے بارے میں صاف صاف کوئی فتویٰ جاری کرنے سے باز رہتے ہیں اور محض ان کے اعتقادات کے بارے میں شکوک پیدا کرنے اور ان کی مفروضہ لغزشوں پر ناشائستگی سے انھیں سرزنش کرتے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ عرفانی روایت کا لوٹا اٹھا کر موصوف بھی ظروف بردارفتویٰ پردازوں کی لمبی قطار میں لگ گئے تو اس سے اقبال کا تو کچھ بگڑنے سے رہا، الٹا اکیڈمی کی طرف سے ہر پہلی تاریخ کو ملنے والا لفافہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اور اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محض ٹیلی وژن کی اداکاری کے اکلِ حرام پر انحصار کرنا پڑے گا۔


۸
اقبال اکیڈمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا، یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکیڈمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی اور وہ رات کو اس فکر میں پڑے بغیر چین کی نیند سویا کرتے کہ خطبات میں اختیارکردہ واضح فکری طریق کار، اور استدلال کے ذریعے وضع کیے ہوے غیرمبہم اجتہادی نتائج کی اہمیت کو کس طرح کم کر کے پیش کیا جائے کہ اقبال کا نقطۂ نظر ریاست کی سیاسی پالیسی اور قدامت پرست مذہبی نظریے سے ہم آہنگ دکھائی دینے لگے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بڑے شاعر اور اسلامی نظریات کے مفکر اور اجتہاد کی بےمثال صلاحیت رکھنے والے مجتہد کے طور پر اپنے مقام اور اس کی ذمے داریوں کی تو آگاہی تھی، لیکن انھیں اس کا گمان تک نہ تھا کہ بعدازمرگ انھیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے تسلیم شدہ سرکاری شاعر و مفکر کے (قطعی غیرشایانِ شان) عہدے پر تعینات کیا جانے والا ہے جس کے تقاضے اور مصلحتیں ان کی اختیارکردہ ذمے داریوں سے قطعی مختلف، بلکہ بعض مقامات پر متضاد ہوں گی۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اقبال اکیڈمی وغیرہ کو انھیں اس بعدازمرگ وضع کردہ سانچے میں فٹ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور ان عمال کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش اقبال نے اپنے ناخواندہ مقام اور ان حضرات کی نوکریوں کا خیال کرتے ہوے کسی قدر احتیاط کا ثبوت دیا ہوتا۔ بدقسمتی سے اقبال نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ ان دقتوں کواپنے پیشے کی مشکلات کے طور پر قبول کر کے انھوں نے ان دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے چند دلچسپ طریقے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو سہیل عمر نے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال نئے تناظر میں‘‘ میں اختیار کیا، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ کسی طرح شاعری کو خطبات کے مدمقابل ٹھہرایا جائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی شاعری سے، تشریح و تعبیر کی مدد سے، ایک ایسا نقطۂ نظر برآمد کیا جا سکتا ہے جو خطبات میں سامنے آنے والے نقطۂ نظر سے مختلف اور قابلِ ترجیح ہو۔ جو لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں ان کا ذکر سہیل عمر نے اس طرح کیا ہے: ’’ان کی عام دلیل یہ ہے کہ خطبات سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر۔ یہ لوگ وہ ہیں جو شاعری پڑھنے یا سمجھنے کے اہل ہی نہیں...اس رویے کا نتیجہ شعرفراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔‘‘(ص۱۲) میں نہیں جانتا کہ یہ کن لوگوں کا ذکر ہے، کیونکہ سہیل عمر نے یہ بات کسی شخص کا نام لیے یا کوئی حوالہ دیے بغیر لکھی ہے۔ تاہم ان نامعلوم افراد کے دفاع میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاعری پڑھنے یا سمجھنے کی اہلیت ایسی چیز نہیں جس کا اقبال اکیڈمی کے باہر پایا جانا ممکن نہ ہو، لیکن سہیل عمر کے اس بیان میں ایک مغالطہ ایسا ہے جس کی تردیدضروری ہے۔ خطبات کو ’’سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ‘‘ قرار دینے کا یہ مطلب کہیں سے بھی نہیں نکلتا کہ ’’شاعری کو اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر‘‘ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ شاعری میں بعض جگہ شاعر کے غیرمبہم نقطۂ نظر کو پالینا ناممکن نہیں ہوتا۔ اقبال کی شاعری میں جابجا مختلف اہم معاملات پر ان کا نقطۂ نظر بھی صراحت سے سامنے آتا ہے جس کی موجودگی میں ان کی فکر پر اس سے متضاد نقطۂ نظر سے حکم لگانا ممکن نہیں رہتا۔ چند مثالیں دیکھیے جو کسی خاص کوشش کے بغیر چنی گئی ہیں:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خُم کے سر پہ تم، خشتِ کلیسیا ابھی
گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رختِ سفر اٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
نہیں جنسِ شرابِ آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں


لیکن شاعری صرف نقطۂ نظر یا اعتقادات کے اظہار یا اعلان پر مشتمل نہیں ہوتی (اگرچہ اکیڈمی کے نائب ناظم کا سلوک اقبال کے شعر کے ساتھ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ پھرتی سے شعر کے قارورے کا امتحان کر کے رپورٹ دے دی جائے کہ اس کی روشنی میں اقبال کا عقیدہ قابل قبول ٹھہرتا ہے یا نہیں)۔ اس کے برعکس خطبات کا متن ایسا ہے جسے اقبال نے ان اجتہادی نتائج کو ممکنہ حد تک واضح اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی غرض سے تحریر کیا جن پر وہ اپنے اختیارکردہ مخصوص طریق کار اور طرزِ استدلال کی مدد سے پہنچے تھے۔ علاوہ ازیں، شاعری میں اقبال کا خطاب کسی مخصوص گروہ سے نہیں ہے جس کی خصوصیات کے بارے میں کوئی مجموعی حکم لگایا جا سکتا ہو، جبکہ خطبات کے سلسلے میں یہ امر اقبال کے ذہن میں پوری طرح واضح ہے: یہاں وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کے ایک مخصوص مقام پر ان جدید ذہن رکھنے والے مسلمانوں سے خطاب کر رہے ہیں جو مغربی فلسفے کی تعلیم سے روشنی حاصل کرنے کی بدولت اقبال کے نزدیک ان مباحث کو سمجھنے کے اہل ہیں جن پر خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں شاعری کو خطبات کے برعکس یا کم تر سمجھنے کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اور اس کا نتیجہ شعرفراموشی کی صورت میں کیونکر اور کب نکلا؟
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی سے خطاب کے متن نے، جس میں انھوں نے نئی قائم شدہ ریاست کے سیاسی نظام کے رہنما خطوط واضح طور پر بیان کیے تھے، ملک کو اس کے عین مخالف سمت میں لے جانے والے چیرہ دست حکمرانوں اور ان کے سرکاری عمّال کے لیے چنددرچند دشواریاں پیدا کی ہیں، اسی طرح اقبال کے خطبات نے بھی ان حلقوں کو متواتر مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔ جس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اقبال کی شاعری سے نمٹنا ان کے لیے آسانی سے ممکن ہوا ہے۔ البتہ شاعری میں تشریح و تعبیر کی گنجائش نثر میں دیے گئے واضح بیان کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور نائب ناظم کی قبیل کے شارحین اسی گنجائش کو تاویل کے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
احمد جاوید نے جب اقبال اکیڈمی میں نوکری پانے کے لیے درخواست دی ہوگی تو یقیناً انٹرویو کے لیے بھی پیش ہوے ہوں گے، اور ثقافت اور کھیل کی وفاقی وزات کے ارباب اختیار کو یقین دلایا ہو گا کہ وہ وزارت اور اکیڈمی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موزوں قابلیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کھیلوں سے اپنی دلچسپی کے نمونے کے طور پر چڑی ماری کے کھیل میں اپنی کارکردگی کو پیش کیا ہو گا اور انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ اس کھیل کے کرتبوں سے شعرِ اقبال اور فکرِ اقبال کے طائرانِ لاہوتی کو بھی شکار کیا جا سکتا ہے۔ بعد میں، جولائی ۲۰۰۳ء میں، انھیں کسی اور معاملے میں ناسازگار حالات پیش آنے پر مجبور ہو کر چڑی ماری سے تحریری طور پر توبہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، جس کا متن آپ کراچی کے رسالے ’’دنیازاد‘‘، شمارہ ۹ کے صفحہ ۳۳۰ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ لیکن توبہ کے باوجود اقبال پر ان کی غلیل بازی بدستور جاری ہے، جس کے چند نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں جن میں ان کا لایا ہوا یہ نادر نکتہ بھی شامل تھا کہ چاند رات کو اپنے پیشے کی دشواریوں کے ہاتھوں خیاطوں کی کیا ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ نوکری کی عائدکردہ ذمے داریوں کے ہاتھوں خود موصوف کی اپنی ذہنی کیفیت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ ’’اقبالیات‘‘ کے محولہ بالا شمارے میں اقبال کے تصور زمان و مکاں سے ہاتھاپائی کرتے ہوے وہ ان سرکاری ذمے داریوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔‘‘( ص ۹۳) ’’دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر کو اقبال کا حتمی نقطئہ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟‘‘ (ص۹۳-۹۴)
اگر کوئی ایسی چیز فطری طریقے سے پیدا ہونے کو تیار نہیں ہوتی تو اسے نظریۂ ضرورت کے تحت زبردستی پیدا کیا جائے گا، کیونکہ مقصود حقیقی ’’خطبات میں اظہار پانے والے نقطئہ نظر‘‘ کا، بقول یوسفی، دف مارنا ہے۔ اس کے دو طریقے مروج ہیں: ایک تو یہ کہ اقبال کے ظاہرکردہ کسی بھی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سلسلے میں کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ انھوں نے اس پر نظرثانی کر لی تھی، یا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حیات نے وفا نہ کی، وغیرہ۔ دوسرا طریقہ یہ کہ تاویل کے ذریعے سے یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ جہاں کہیں اقبال نے دن کو سفید قرار دیا وہاں دراصل ان کی مراد سیاہ رنگ سے تھی۔ یہ کون بڑی بات ہے؛ آخر تاویل ہی سے تو ’’پرانے تخیلات‘‘ کے حامل حضرات، بقول اقبال، قرآن کو پاژند بنایا کرتے تھے۔ نائب ناظم بھی ایسا ہی مبارک ارادہ رکھتے ہیں:
’’...جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کارفرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی راے پر نظرِ ثانی کی اور بعض معامالات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دو لختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریںگے۔‘‘ (ص ۹۴)
بسم اﷲ، ضرور کیجیے کوشش، لیکن ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا۔ اگر آپ نے دھاندلی کرتے ہوے اقبال پر ان نظریات کو منڈھنے کی کوشش کی جو ان کے نہیں تھے، تو اقبال کو پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے 'academic' self کو، یعنی نائب ناظم کے طور پر آپ کی نوکری کی مجبوریوں کو، خاطر میں نہیں لاتے اور نہ آپ کے electronic self یعنیٹیلی اُپدیشک ہونے سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی آپ کو ٹوکے گا ضرور، اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ مجبور ہو کر آپ کو اپنی اس سرگرمی سے بھی توبہ کا اعلان کرنا پڑ جائے۔ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔
حقیقت یہ ہے کہ خطبات میں اقبال نے اپنا نقطۂ نظرجابجا اتنے صاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ اس سلسلے میں کنفیوژن پھیلانے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں، جنھیں سہیل عمر کی تصنیف میں نقل کیا گیا ہے، اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے، اور اکیڈمی کے پسندیدہ نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔


…eternal principles when they are understood to exclude all possibilities of change which according to the Qur’an is one of the greatest signs of God, tend to immobilize what is essentially mobile in its nature…. [T]he immobility of Islam during the last five hundred years illustrates [this principle]. (p-139-140)
…conservative thinkers regarded this movement [of Rationalism] as a force of disintegration , and considered it a danger to the stability of Islam as a social polity. Their main purpose, therefore, was to preserve the social integrity of Islam, and to realize this the only course open to them was to utilize the binding force of Shari’ah and to make the structure of their legal system as rigorous as possible. (p-142)
The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48)


اس پر احمد جاویدفرماتے ہیں:’’ Rationalism کا اقبال سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔... Rationalism اپنی ہر نوع میں اور ہر جہت میں وحی کا انکار ہے۔ اس کا انحصار ہی اس تصور اور دعوے پر ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کافی ہے اور اسے باہر سے کسی رہ نمائی کی حاجت نہیں ہے۔‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ۱۴، ص۲۴)


This spirit of total other-worldliness in later Sufism… offering the prospect of unrestrained thought on its speculative side, … attracted and finally absorbed the best minds in Islam. The Muslim state was thus left generally in the hands of intellectual mediocrities, and the unthinking masses of Islam, having no personalities of a higher caliber to guide them, found their security only in blindly following the schools. (p-142-143)
The fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving the uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari’ah as expounded by the early doctors of Islam. (p-143)
... a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay. (p-30)
The most remarkable phenomenon of modern history however is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. (p-29)
The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggest new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy. No wonder then that the younger generations of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith. With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to examine, in an independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and, if necessary, reconstruction, of theological thought in Islam (p-29-30)
They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision. (p-30-31)
I propose to undertake a philosophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity. (p-30)
The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge. (p-99)
The truth is that all search of knowledge is essentially a form of prayer. The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer. (p-94)
The question which confronts him [the Turk] today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future, is whether the Law of Islam is capable of evolution; a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative. (p-146)
In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent; and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not today, one must wait. In the meantime the Caliph must reduce his own house to order and lay the foundations of a workable modern State. (p-145-146)
The republican form of government is not only thoroughly consistent with the spirit of Islam, but has also become a necessity in view of the new forces that are set free in the world of Islam. (p-144)


۹
علامہ نائب ناظم اور علامہ ندوی (بہ روایت زبانی ڈاکٹر غلام محمد) اس بارے میں پوری طرح ہم خیال ہیں کہ ’’ اجتہاد کی صلاحیت ... یقیناً اقبال میں نہیں پائی جاتی ...‘‘ (’’احیائے علوم‘‘، شمارہ ۱۴، ص۱۳) اقبال کے بارے میں یہ فتویٰ ان دیگر فتووں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو ان کی زندگی میں اور بعد کے زمانے میں جاری کیے جاتے رہے ہیں اور اس کا انجام بھی سابقہ فتووں سے مختلف ہونے والا نہیں۔ ان فتووں سے قطع نظر، اقبال نے جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں پرانے تخیلات اور تقلیدپرستی سے پیدا ہونے والی خامیوں کو رفع کر کے برصغیر کے مسلمان کے نقطۂ نظر سے مذہب کی معنویت کو نئے سرے سے متعین کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جدید دور کے تقاضوں کے مدنظر مذہبی فکر میں کس قسم کی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے اور اس اصلاح شدہ مذہبی فکر پر مبنی انفرادی اور اجتماعی عملی فیصلوں کی کیا صورت اس دور کے لیے ممکن اور مناسب ہے۔ اقبال کے پڑھنے والوں کا حق ہے کہ وہ ان کی تحریروں کو ان کے درست تناظر میں پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں اور تاویل وغیرہ کے حربوں سے اقبال کے نقطۂ نظر کی صورت مسخ کرنے کی کوششوں کی بھرپورمزاحمت کریں۔



No comments:

Post a Comment