Friday, May 8, 2015

اجتہاد اور فیصلہ سازی

اجمل کمال
حال ہی میں مجھے ’’احیائے علوم‘‘ کے چند گزشتہ شماروں کے مشمولات اور اجتہاد کے موضوع سے متعلق کچھ اورتحریریں کم و بیش ایک ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کا ’’جریدہ‘‘ بھی تھا جس کے شمارہ ۳۳ میں علامہ اقبال کے ان خطبات پر جنھیں بعد میں ’’اسلامی فکر کی تشکیل نو‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا، علامہ سید سلیمان ندوی کے تبصرے شامل ہیں۔ ’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بات کی وجہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ علامہ ندوی نے اپنے ان خیالات کا اظہار علامہ اقبال کی زندگی میں کرنے سے کیوں احتراز کیا، لیکن انھیں اپنے اس استفسار کا جواب کہیں سے نہ مل سکا۔ (آپ دیکھیں گے کہ ان تبصرات میں حکیم الامت کا ذکر ہر جگہ بالالتزام ’’اقبال مرحوم‘‘ کے نام سے آتا ہے۔) دراصل اقبال کے خللِ ایمان کے بارے میں اپنی قطعی دوٹوک رائے کے باوجود علامہ ندوی کسی سبب سے ان کی شاعری کو ملت کے لیے مفید خیال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اقبال کے بزعم خود اجتہاد پر نہ صرف اپنی رائے برسرعام ظاہر نہیں کی بلکہ دریاباد والے مولانا ماجد کو بھی کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا کہ وہ صبر سے کام لیں ورنہ بقول علامہ ندوی ’’مولانا ماجد تو اس معاملہ میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جو کچھ لاوا ان کے دل میں ہے کتابی صورت میں تحریر کر دیں‘‘۔ علامہ ندوی نے اقبال کے عقیدت مندوں پر بیش بہا احسان کیا ورنہ مولانا ماجد کی غیرت کو اپنے عملی اظہار کا موقع مل جاتا تو خدانخواستہ شاعرمشرق کے ساتھ بھی لاہور کی سڑکوں پر وہی سلوک ہو سکتا تھا جو یگانہ کے ساتھ لکھنؤ میں ہوا۔ اسے علامہ ندوی اور دیگر علمائے حق سے علامہ اقبال کے اچھے روابط کا کرشمہ جاننا چاہیے (یگانہ سے غالباً یہیں چوک ہوئی) کہ وہ کافر اور ملحد ٹھہرائے جانے کے باوجود رحمت اﷲ علیہ بھی کہلاتے ہیں—یا ممکن ہے ان دونوں باتوں میں تضاد صرف ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے والوں کو دکھائی دیتا ہو۔
علامہ ندوی کو اس امر میں قطعاً شبہ نہیں کہ علامہ اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات کی بنیاد پر کفر، الحاد اور تحریف (بلکہ اس سے بدتر) کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ علامہ ندوی اور دیگر علمائے حق جس سہولت اور بےتکلفی سے استعمال کرتے ہیں اس پر وﷲ رشک آتا ہے۔ ’’جریدہ‘‘ ہی کے شمارہ ۳۴ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اکادمی لاہور کے سربراہ محمد سہیل عمر اور خود ’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی بھی خطبات کے بارے میں کم وبیش وہی رائے رکھتے ہیں جو علامہ ندوی کی ہے۔ کس قدر قلبی طمانینت اور شکر کا مقام ہے کہ علامہ ندوی اور مولانا ماجد کے سانحہ ٔ ارتحال کے بعد اقبال کا ایمان اور ہم گناہگاروں کی دنیا و عقبیٰ ان دونوں علمائے حق کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یہ امر البتہ عقلِ محدود کی رسائی سے باہر ہے کہ کائنات کی حرکت یا خودی بمقابلہ خدائی یا علمائے حق کے بلا شرکتِ غیرے حقِ اجتہاد کے موضوعات پر جن خیالات کو نثر (انگریزی یا اردو) میں ظاہر کرنے سے کفر کا فتویٰ وارد ہوتا ہے انھی کو کسی رواں دواں بحر میں ڈھال دینے سے (مثلاً ’’یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید/ کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون‘‘، یا ’’یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ‘‘، یا’’دینِ ملّا فی سبیل ﷲ فساد‘‘) ملت کا ایمان تازہ کرنے والی شاعری کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ چونکہ کلام اقبال محدود عقل رکھنے والے عوام الناس یا جمہورِ امت کی نگاہ سے بھی گزر سکتا ہے، اس لیے اقبال اکادمی کے اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی شائع کردہ کلیات اقبال میں سے اس قسم کے اشعار کو خارج کرنے کا اہتمام کریں۔ اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہو گا کہ کلیات کی ضخامت ایک چوتھائی سے کم رہ جائے گی؛ اشاعت کے اخراجات میں ہونے والی اس بچت سے اکادمی کے صاحبِ ایمان و اجتہاد عملے کے مشاہرے میں اضافے کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔
علامہ ندوی اور محمد سہیل عمر دونوں شہادت دیتے ہیں کہ اقبال نے رحلت سے پیشتر اپنے کفروالحاد پر مبنی خیالات سے رجوع کر لیا تھا اور خطبات پر نظرثانی کا ارادہ رکھتے تھے لیکن پیکِ اجل نے انھیں اس کی مہلت نہ دی۔ اس معتبر شہادت کی بنیاد پر خطبات کا متن منسوخ ٹھہرتا ہے، چنانچہ خطبات کی متواتر اشاعت اور ہسپانوی اور دیگر زبانوں میں ان کے ترجمے کا کام جاری رکھنے کا بھی کوئی جواز نہیں معلوم ہوتا۔ اسے روک دینے سے قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ مزید کم ہو سکتا ہے اور امت بھی ان گمراہ کن خیالات سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
اجتہاد کے موضوع پر آپ نے شمارہ ۸ اور ۹ میں جن تحریروں کو جگہ دی ہے ان میں باہم متضاد خیالات ظاہر کیے گئے ہیں۔ خود آپ کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں غزالی اور ابن خلدون کی راہ پر چلنا ہمارے کام نہیں آ سکتا۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ کو اعتراض ہے کہ اجتہاد کو مذہبی دائرے میں قید کر دیا گیا ہے۔ جبکہ شمارہ ۹ کے مراسلہ نگار کو اس اعتراض پر یہ اعتراض ہے کہ اجتہاد وہی شخص کر سکتا ہے جو اس کے لیے ضروری مذہبی شرائط پوری کرتا ہو۔ اگر اجتہاد سے مراد یہ طے کرنا ہے کہ کسی معاصر مسئلے پر قرآن و سنت اور فقہ کی رو سے کون سا موقف درست ہے، تو علامہ ندوی اور دیگر علمائے حق کا اس امر پر اصرار قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کرنے والے کو نہ صرف قرآن، سنت، حدیث ، فقہ وغیرہ سے گہری واقفیت ہونی چاہیے بلکہ عربی زبان پر عبور بھی لازمی ہے، اور عقیدے اور ایمان کی سلامتی کی شرط تو ہے ہی۔ یہ کام اگر سرسید، اقبال، علامہ مشرقی، غلام احمد پرویز جیسے افراد کے ہاتھوں انجام پائے گا تو وہ اسلام سے اپنے مطلب کے معنی برآمد کر کے دینِ حق کی شکل مسخ کرنے کے سوا بھلا اور کیا کریں گے۔ اس لیے میری کم مایہ رائے میں مذہبی موقف کی تعبیر یعنی اجتہاد کا کام علمائے حق ہی کے لیے چھوڑ دینا مناسب ہے۔ اس کے برخلاف ایک اور کام ایسا ہے، جسے فیصلہ سازی کا نام دیا جائے تو غیرموزوں نہ ہو گا، جو امت کے اکابرواصاغر بشمول علمائے حق و عوام کالانعام اپنی اپنی سرگرمیوں کے دائرے میں متواتر کیا ہی کرتے ہیں۔ یہ بات کسی قدر تفصیل کی متقاضی ہے جو میں ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
علامہ ندوی کا قطعی فیصلہ ہے کہ ’’ملوکیت قرآن سے ثابت ہے، اسے قابلِ نفرت قرار دینے کی شرعی توجیہہ نہیں کی جا سکتی... یہ کہنا کہ اسلام اور خلافت کا نظام خالصتاً جمہوری ہے، تاریخ اسلام کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ اب دیکھیے حضرت ابوبکر کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا، بیعت بعد میں ہوئی۔ خلیفہ تو انھیں مقرر کر دیا گیا۔ اس تقرری کا فیصلہ عوام نے نہیں ارباب حل و عقد نے کیا۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ منتخب ہوئے تھے؟ کیا رسول ﷲ نے انھیں خلافت کے فیصلے کا اختیار دیا تھا؟...ان کی حیثیت مسلّمہ تھی۔ جس طرح اہلِ عرب اپنی اولاد کو پہچانتے تھے اسی طرح ان لوگوں کی اہمیت، حیثیت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ہر کہہ و مہہ کو خلافت کے فیصلے میں نہ شریک کیا جا سکتا تھا نہ شریک کرنے کی ضرورت تھی۔ اتنے اہم منصب کا فیصلہ اربابِ حل و عقد کریں گے یا ہر ایک سے پوچھا جائے گا؟ قرآن کریم اس معاملے میں واضح ہدایات دیتا ہے جس سے جمہوریت کے فلسفۂ عوام کی نفی ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ جب ہدایات کے عین مطابق ملوکیت رائج ہو گئی تو مسئلہ درپیش ہوا کہ ایسے اربابِ حل و عقد کہاں سے لائے جائیں جن کی حیثیت مسلمہ اور ناقابلِ مزاحمت ہو۔ یہ ممکن نہ تھا چنانچہ ان حالات میں برادرکُشی کا نسبتاً زیادہ سہل اور موثر طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس طریقے کے بےشمار عاملین میں حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمت اﷲ علیہ کا نام بھی آتا ہے جن کی بابت ایمان کی راہ سے ہٹنے کا گمان کیا ہی نہیں جا سکتا۔ خوش قسمتی سے ہر مقتول برادر اور برادرزادے کے سلسلے میں کسی نہ کسی بنیاد پر واجب القتل ہونے کا شرعی جواز، ترجیحاً قتل سے پیشتر ورنہ بعدازاں، علمائے حق کے فتوے سے دستیاب ہو جاتا رہا اور یوں یہ ملوکانہ اجتہاد قیدِ شریعت ہی میں رہا۔ ہر کہہ ومہہ کو ان فیصلوں میں شریک کرنے کا تو ظاہر ہے کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا تھا، اور نہ اب تک اٹھتا ہے۔
لیکن اگر حالات کے پیش نظر کوئی ایسا فیصلہ کرنا ناگزیر ہو جائے جس کی تائید شرعی اجتہاد سے نہ ہو سکتی ہو تو بیشتر اہلِ ایمان کا دستور ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اپنے عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے خاموشی سے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کر لیتے ہیں اور یوں ایمان سلامت لے جاتے ہیں۔ اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ مثلاً مولوی (ڈپٹی) نذیر احمد کا ایمان (’’امہات الامہ‘‘ کا مصنف ہونے کے باوجود جو اگر آج شائع ہوتی تو شاید دفعہ ۲۹۵ سی کی زد میں آ جاتی) کسی بھی قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے، لیکن انھوں نے سودخوری کو بلاتکلف اختیار کیا، جس کے حرام ہونے پر اجماعِ امت ہے اور جو بقول علامہ ندوی کے بنیوں اور پٹھانوں کا شعار ہے۔ الحمدللہ کہ ۱۹۴۷ء میں ہمیں بنیوں سے نجات نصیب ہوئی۔ تاہم پٹھان سودخور آج بھی پہلے کی طرح سرگرم ہیں۔ علاوہ انفرادی اور خاندانی احتیاج کے تحت لیے جانے والے سودی قرضوں کے، کراچی شہر میں چلنے والی بیشتر بسیں اور تمام منی بسیں انھی کے جذبۂ عمل کے ذریعے سڑکوں پر آئی ہیں، اور ان کی شرح سود بینکوں کی شرح منافع کے مقابلے میں آٹھ سے دس گنا تک ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ بیشتر اہلِ ایمان نہ صرف مولوی نذیر احمد کی طرح باریش ہیں بلکہ حاجی بھی ہیں اور انتخابات میں (جن کا ویسے کوئی شرعی جواز نہیں) عموماً مذہبی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے (یا کوئی اور وجہ ہو گی، وﷲ اعلم بالصواب) کہ رِبا کے موضوع پر ہونے والی تمام بحث میں بینکوں کا ذکر تو خوب ملے گا لیکن ان نیک روحوں کا کہیں تذکرہ نہیں ہو گا۔ ان کی تالیفِ قلوب کے خیال سے نہ کبھی ان کے خلاف کسی لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا اور نہ کوئی احتجاجی مہم چلائی گئی۔ امیرالمومنین جنرل ضیاء الحق شہید رحمت ﷲ علیہ نے بھی شریعت کے نفاذ کی مہم کے دوران بینکوں کو تو ضرور بےسود بینکاری میں مبتلا کیا لیکن ان سودخوروں کے باب میں عفوودرگزر سے کام لیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز کی تصانیف میں قطع اللحیہ (داڑھی مونڈنے)، تصویر کھنچوانے اور کھینچنے، غیرمسلموں کی وضع قطع اختیار کرنے جیسے کاموں کی حرمت صاف صاف بیان ہوئی ہے۔ امت کے اکابر نے، الاماشاء ﷲ، جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ اس واضح شرعی فیصلے کی ضد تھا۔ ان میں قائداعظم، علامہ اقبال، قائدملت (بعدازاں شہید ملت) لیاقت علی خاں، جنرل (بعدازاں فیلڈ مارشل) ایوب خاں، امیرالمومنین بننے میں چند گھنٹوں کے فرق سے ناکام رہنے والے جنرل یحییٰ خاں، ذوالفقار علی بھٹو شہید، ان کو رتبۂ شہادت پر فائز کرنے والے امیرالمومنین جنرل ضیاء الحق شہید وغیرہ سے تاحال تمام اولی الامر شامل ہیں۔ دنیائے ادب میں محمد حسن عسکری کے ظہور کے بعد سے حکیم الامت ثانی (یا ممکن ہے حضرت تھانوی نوّر ﷲ مرقدہ‘ حکیم الامت اول ہوں اور اقبال حکیم الامت ثانی) کے عقیدت مندوں کی تعداد اردو کے ادیبوں اور نقادوں میں بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی اور ابوالکلام قاسمی سے لے کر سلیم احمد، جمال پانی پتی، مشفق خواجہ، آصف فرخی اور مبین مرزا تک ان تمام خوش عقیدہ بزرگوں کی عسکری صاحب اور بالواسطہ (یا بلاواسطہ) حضرت تھانوی سے عقیدت میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ البتہ مذکورہ بالا تمام امور میں ان سب نے علمائے حق کے شرعی فیصلے پر حرف گیری سے احتراز کرتے ہوے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کیا اور اس پر قائم رہے۔ عسکری کا رتبہ چونکہ ان سب سے سوا تھا، اس لیے وہ یہ تک کہنے کا ہیاؤ رکھتے تھے کہ ’’دین میں نے صرف کتابوں سے ہی نہیں بلکہ کیمرے کے لینس سے بھی سیکھا ہے‘‘۔ ایک ایسے فعل سے جس کی حرمت پر اجماع امت ہے، دین سیکھنے کا کام لینا—ﷲ ﷲ! انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ ان کی کتاب ’’وقت کی راگنی‘‘ میں موسیقی جیسے فعلِ حرام سے بھی دین کی بصیرت اخذ کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ اس پر قیاس کیا جائے توغالباً مولوی نذیر احمد بھی کہہ سکتے تھے کہ دین انھوں نے سرکار انگلیشیہ کے سررشتۂ تعلیم کے لیے تحریرکردہ کتابوں ہی سے نہیں بلکہ سودخوری سے بھی سیکھا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کو، کہ شمس العلما ہونے کے ساتھ ساتھ ندوۃ العلما کے قائد بھی تھے، یقیناً معلوم ہو گا کہ فقہ کی رو سے کسی نامحرم عورت کے چہرے اور سراپے پر نظر ڈالنا آنکھوں کا زنا، اس سے بات کرنا زبان کا زنا، اس کی بات سننا کانوں کا زنا (اور غالباً اس سے مراسلت کرنا قلم کا زنا) ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے عطیہ فیضی کی صحبتِ ملائم سے حتی الوسع لطف اندوز ہونے کا انتخاب کیا۔ البتہ ایسی کوئی شہادت غالباً نہیں ملتی کہ انھوں نے اپنی حیاتِ معاشقہ کا کوئی شرعی جواز یا عذرِ لنگ تراشنے کی کوشش کی ہو۔ انگریزوں کی ملازمت کرنے اور اپنی اولاد کو انگریزی طرزِتعلیم اور طرزِحیات کی غلامی میں مبتلا کرنے کی بابت فقہی اور روایتی نقطۂ نظر سے حضرت اکبرالٰہ آبادی علیہ الرحمہ سے بڑھ کر کون واقف ہو گا؛ البتہ انھوں نے اس ذکر کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں/ فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں‘‘ اور ان امور کے باب میں جو چاہا وہ کیا۔
الناس علیٰ دین ملوکہم۔ عوام الناس بھی عرصۂ دراز سے جدید زندگی سے متعلق خود کو درپیش فیصلوں کے سلسلے میں یہی طرزِ عمل اختیار کیے ہوے ہیں اگرچہ اجتہاد جیسے نازک کام میں ہاتھ ڈالنے کا وہ تصور تک نہیں کر سکتے۔ ’’جنگ‘‘ اخبار کے ہفتہ وار کالم ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں متعدد بار بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کی ملازمت اور ٹی وی دیکھنے یا اس پر کام کرنے کے قطعاً حرام ہونے کے اعلان کے باوجود ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ بینکوں وغیرہ سے بڑی تعداد میں اجتماعی استعفے دیے گئے ہوں یا لوگوں نے ٹی وی دیکھنا یا اس پر کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ عوام الناس کی تو بات چھوڑیے، خود علمائے حق کو دن کے کسی بھی وقت ٹی وی کے کسی نہ کسی چینل کے اسکرین پر جلوہ افروز دیکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ اجتہاد کے لیے درکارشرائط پوری کرنے کا موقع اور وقت عوام کو دستیاب نہیں ہوتا، اس لیے وہ یہ کام علمائے حق کے سپرد کر کے اپنے معاملات کا فیصلہ اپنی محدود عقل کے مطابق خود ہی کر لیتے ہیں۔ مثلاً اس بات پر علمائے حق کا اجماع ہے کہ ضبط تولید اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔ اب اگر کسی شخص کو کثرتِ اولاد سے پیدا ہونے والے فوری مسائل کا سامنا ہے تو وہ اجتہاد کے قابل ہونے کے لیے درسِ نظامی میں داخلہ تو لینے سے رہا؛ وہ علمائے حق کا واجب احترام ملحوظ اور اپنا عقیدہ قائم رکھتے ہوے بہبود آبادی کے کسی قریبی مرکز سے رابطہ کر کے مناسب اقدام کر لیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپریل ۱۹۷۹ء کے اولین ہفتے میں (ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے فوراً بعد) مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے حق کا یہ فتویٰ اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ غائبانہ نمازجنازہ کا شریعت میں کوئی تصور نہیں اور یہ قطعی حرام ہے۔ لیکن جو لوگ یہ نماز ادا کرنا چاہتے تھے وہ اس صریح فتوے کے باوجود اپنے کام میں مشغول رہے۔ یہ کام اگست ۱۹۸۸ء کے تیسرے ہفتے میں بھی (جنرل ضیا کے ہوائی حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد) مختلف مقامات پر، کہا جاتا ہے کہ مسجد نبوی میں بھی، انجام دیا گیا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں علمائے حق کی جانب سے اجتہاد کے عمل کے دوران ایک ہی مسئلے پر ایک سے زیادہ ایسے فیصلوں کی مثالیں مل جاتی ہیں جو ایک دوسرے کی تردید کرتے معلوم ہوتے ہیں، مثلاً لاؤڈاسپیکر کا استعمال، جو پہلے حرام تھا، بعد میں حلال قرار پایا؛ لیکن علمائے حق کی حکمت پر حرف زنی کی عوام الناس کو کیا مجال، البتہ ان میں سے بہت سوں کو اس حسرت کا دبی زبان سے اظہار کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ کاش اس ایک معاملے میں انھوں نے اپنے پہلے فیصلے پر استقرار کو موزوں سمجھا ہوتا۔
آپ کی فرقوں اور مسلکوں کے بارے میں صلح کل کی پالیسی علمائے حق کے اصولی موقف کو نظرانداز کرتی معلوم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں سرسید کی بات بھی بڑی دلچسپ معلوم ہوئی۔ کہتے ہیں کہ فرقوں کی کثرت اور ایک فرقے کی طرف سے دوسرے کی تکفیر سے اسلام کے نور پر کچھ فرق نہیں پڑتا اور وہ بدستور بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب کسی بھی مسلک یا فقہ سے تعلق رکھنے والے علمائے حق قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کا مخالف فرقہ اپنے عقائد یا اعمال یا رسوم کی بنیاد پر کافر یا مشرک ہے تو آپ ان سے آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے اور باطل کو حق (یا تقریباً حق) قرار دینے کی توقع کیونکر کر سکتے ہیں؟ دیوبندی فقہ کی رو سے غالباً بریلوی حضرات مشرک اوراہلِ حدیث، شیعہ اور اسمٰعیلی عقائد رکھنے والے کافر ہیں۔ (دیگر فرقوں کے علمائے حق کی نظر میں شاید وہ خود دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔) تاہم علمائے حق کے ہر خطیبانہ بیان میں پاکستان کے چودہ (یا شاید پندرہ) کروڑمسلمان عوام کا ذکرموجود ہوتا ہے اور وہ ان (اور دیگر) خارج از اسلام فرقوں کی آبادی کو مسلمانوں کی کل تعداد میں سے منہا کرنا ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ ان کی غیرتِ ایمانی غالباً تمام مخالف فرقوں سے وہی سلوک کرنے کا تقاضا کرتی ہو گی جو ہمارے ملک میں قادیانیوں سے روا رکھا جاتا ہے لیکن ان کی عددی یا مادّی قوت کے باعث (یا کسی اور سبب سے، وﷲ اعلم بالصواب) ایسا کرنے سے محترز رہتے ہیں۔ (قادیانیوں کو ان تمام فرقوں کے مقابلے میں وہی یگانہ حیثیت حاصل ہے جو علامہ اقبال، سرسید، شبلی، وغیرہ کے مقابلے میں یگانہ کو حاصل ہوئی تھی۔) یہی طرزعمل اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب شیعوں کو کافر قرار دینے کے ساتھ ساتھ علمائے حق ایران، عراق اور شیعہ اکثریت کے دیگر ملکوں کو مسلم ملکوں ہی کی فہرست میں جگہ دیتے ہیں۔ علمائے حق کے طرزعمل کی حکمت تک ہم جیسے گناہ گار عوام الناس کی محدود عقل کہاں بار پا سکتی ہے۔ لیکن یہ بات تسلیم کرنی ہی پڑتی ہے کہ تکفیر باہمی کے اس اجتہادی عمل سے کثیرمسلکی معاشرے کے لیے پرامن بقائے باہمی کے اصول برآمد کرنا ایک دشوار کام ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ اجتہاد اور فیصلہ سازی کے دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے، ورنہ وہی صورت حال پیدا ہو گی جو بعدازانقلاب ایران اور طالبان کے افغانستان میں رونما ہوئی۔
علامہ ندوی نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ اقبال مرحوم علمائے حق کی قوت سے خائف رہتے تھے۔ یہ امر جس طرح حیاتِ عارضی میں ان کی سلامتی کی ضمانت بنا اسی طرح امید ہے کہ حیاتِ ابدی میں ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔ ہمیں بھی اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوے اس قوت سے حتی الوسع ڈرتے رہنا چاہیے اور استغفار کا ورد جاری رکھنا چاہیے۔ اقبال کی کفروالحاد کی روایت کے امین فیض کا شعر ہے:
خالی ہیں گرچہ مسندومنبر، نگوں ہے خلق
رعبِ قبا و ہیبتِ دستار دیکھنا




ضمیمہ
خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ


سائنس اور فلسفے کی ضرورت:
]اقبال مرحوم[ امام غزالی سے سخت نالاں تھے اور سمجھتے تھے کہ غزالی اور قدیم متکلمین اور فقہا نے فلسفے کی مذمت کر کے مسلمانوں پر ترقی، ارتقا اور سائنسی انقلاب کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اگر یہ فقہا اور خصوصاً امام غزالی پیدا نہ ہوتے اور عالم اسلام میں فلسفے کی موت واقع نہ ہوتی تو مسلمانوں پر زوال نہ آتا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ رسول اﷲ اور صحابہ کرام کے پاس تو کوئی فلسفہ نہ تھا لیکن قیصروکسریٰ کیسے فتح ہو گئے تھے؟...وہ مغرب کی تمام تر ترقی کو اسلام ہی کا اثاثہ سمجھتے تھے جو بہت بڑی غلط فہمی تھی اور رفتہ رفتہ یہ غلط فہمی دور ہو گئی تھی۔ ان سے باربار یہ پوچھتا تھا کہ اگر قرآن نے تفکرون تدبرون تعلقون کی دعوت دے کر تجربیت، حواس کے استعمال کے ذریعے مغرب کی اس ترقی کو ممکن بنایا اور رسول ﷲ کی آمد سے مغرب مغرب ہو گیا اور اسلام ہی نے تجربیت، عقلیت، ترقی، ارتقا کا درس دیا اور قرآن و سنت و خلافت راشدہ کا عہد اسی لیے زریں دور تھا ]تو[ خود عہداسلامی میں سائنس کا وہ ارتقا کیوں نہ ہوا جو مغرب میں ممکن ہوا؟ کیا کسی پیغمبر نے ایجادات سے انقلاب برپا کیا یا دعوت سے؟... اگر سائنس ترقی کی اصل اساس ہے تو انبیا کم از کم سائنس داں تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے، لیکن تاریخ اس تصور سے خالی ہے۔...جب مسلمانوں کے سامنے عاد ثمود اہرام مصر موجود تھے تو مسلمان قرآنی تجربیت کے ذریعے ان جیسی عمارتیں چودہ صدیوں میں کیوں نہ بنا سکے؟ یعنی ان میں نقل کرنے کی صلاحیت بھی نہ تھی؟ اس طرح پوری امت ایک ناکام امت ٹھہرتی ہے۔ سائنسی ترقی کے اس فلسفے کے نتیجے میں رسول ﷲ پر زد پڑتی ہے کہ نعوذباللہ اس پیغمبر کے زمانے میں تو کچھ نہ تھا۔ رسول ﷲ کا گھر، مسجد نبوی، مدینہ النبی کے گھر عاد ثمود اہرام مصر کا عشرعشیربھی نہ تھے۔ لہٰذا عہدرسالت سائنسی نقطۂ نظر سے دنیا کا ناکام ترین معاشرہ تھا جو ماضی کے علوم و فنون کا احیا کرنے سے قاصر رہا اور چٹائی، پتوں، ٹاٹ، جھونپڑی کی ثقافت سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ کیا کسی معاشرے کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ صرف مادی پیمانے سائنسی ترقی اور عروج ہے؟ اقبال مرحوم سے میں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر مغرب کی ترقی اسلام اور قرآن سے ممکن ہوئی تو روم، ایران، مصر، چین، یونان، موئن جودڑو اور ہزاروں مدفون تہذیبوں کی ترقیوں کو آپ کس پیغمبر اور کس کتاب سے منسوب کریں گے؟ اقبال مرحوم کے پاس ان سوالوں کے جواب میں گہری خاموشی تھی۔ (211-2)


سرسید کا اجتہاد اور مولوی نذیر احمد کا تبصرہ:
سرسید اجتہاد کو اصلاحِ مذہب کا متبادل ومترادف گردانتے تھے۔ اجتہاد سے ان کی مراد دینی اصطلاح نہیں بلکہ الحاد تھا، یعنی مغرب کے راستے میں دین کا جو حکم رکاوٹ بنے اس کی تاویل کر کے بدل دیا جائے۔ اسے دین سے خارج کر دو۔ بےچارے نہ انگریزی جانتے تھے نہ علومِ اسلام پر عبور رکھتے تھے۔ قرآن کو کلامِ رسول ﷲ مانتے تھے حالانکہ کفار نے بھی اسے کلامِ خداوندی مانا ہے۔ یہ کفر کی حمایت میں کفر سے بھی بڑھ گئے تھے اور پیرویِ مغربی کو عام کرنے میں تقلید کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ (105) لندن کی خادمہ انھیں ہندوستان کے اعلیٰ سے اعلیٰ خاندان کی بیٹی سے بہتر نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ اجتہاد کریں گے تو کیا کریں گے۔ مولوی نذیر احمد نے اسی لیے سرسید کی تفسیر پر جو تبصرہ کیا ہے ٹھیک تو کیا ہے۔ تبصرہ بہت بےہودہ ہے، ثقاہت کے خلاف، لیکن مولوی صاحب دہلوی تھے اور محاورے روزمرہ پر عقائد، اکرام، تعظیم سب قربان کر دیتے تھے۔ اس کا ثبوت ”امّہات الامّہ“ ہے۔ قرآن کے ترجمے میں زبان کس قدر کھردری ہے۔ کھڑی بولی پڑی بولی سب پر عبور رکھتے تھے۔ یہی مزاج سود کو حلال ٹھہراتا ہے۔ قرض سود پر دیتے تھے۔ پیسہ گن گن کر رکھتے تھے۔ مولوی بھی کہلاتے تھے۔ ان کی وجہ سے بےچارے مولوی بہت بدنام ہوئے۔ پہلے صرف بنیے یا پٹھان سودخوری کے لیے مشہور تھے، ڈپٹی صاحب نے مولوی پر بھی سودخوری کا الزام ثابت کر دیا۔ لیکن ”ابن الوقت“ میں جو کچھ لکھا ہے لفظ بہ لفظ سچ لکھا ہے۔ (110)
یورپ کے اصولوں کی مدد سے اجتہاد:
یہ دلچسپ بات ہے کہ تمام جدیدیت پسند، کرامت علی سے مشرقی اور اقبال مرحوم تک، سب اسلام کی اصلاح کے درپے ہیں، ایک بھی ایسا نہیں جو مغرب کی اصلاح چاہتا ہو...سب اسلام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس کو بدلنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ان میں سے کچھ عربی نہیں جانتے، کچھ اسلام کو نہیں جانتے، کچھ مغرب کو نہیں جانتے...مسلمانوں کا اصل انحطاط اور ذلت کی آخری حد یہی ہے کہ انھیں اپنے عروج کے لیے، اپنے آپ کو سنبھالا دینے کے لیے سہارا کہاں سے ملے گا؟ ﷲ سے، اس کے رسول سے، اپنے نظریۂ حیات سے نہیں، بلکہ یورپ کے اصولوں سے، تجربیت سے، سائنس سے، عقلیت سے، معتزلہ سے، نطشے، برگساں کے سپرمین اور وجدان سے۔ یہ پستی کی انتہا ہے۔ اسی لیے علما نے خطبات اقبال مرحوم کی شدید مخالفت کی، کفر کے فتوے بھی دیے گئے...(۳۶) یہ اقبال مرحوم کی سب سے بڑی غلطی ہے اور ناقابل معافی غلطی کہ مغرب کی سائنس اور فلسفے کو منہاج حقیقی بنا کر دین کی تعلیمات کو اس پیمانے پر جانچا جائے نہ کہ دین کو اصل، حقیقی اور درست منہاج سمجھ کر مغرب کے فکروسائنس کو اس پیمانے سے جانچا جائے۔...خطبات میں اقبال مرحوم نے جہاں جہاں مغربی فکروفلسفے کو قرآنی آیات سے ثابت کیا ہے یہ تمام استدلال سرے سے غلط ہے۔ اقبال مرحوم علم تفسیر سے ناواقف تھے اور انھوں نے قرآن کے انگریزی تراجم کے ذریعے قرآن کو سمجھا اور قرآن کی تشریح خالص عقل کی روشنی میں کی، لہٰذا جہاں جہاں بھی قرآنی آیات کو وہ اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں وہاں وہاں وہ ٹھوکریں کھاتے ہیں اور یہ ٹھوکریں تحریفات سے بھی بڑھ کر ہیں۔(۵۹)
کائنات میں تحرک اور تخلیقیت:
اقبال مرحوم نے ... کائنات اور اشیا میں ابدی سکون کی نفی کی اور یہ نفی اس حد تک وسیع ہوئی کہ انھیں کائنات مسلسل تخلیق کا عمل نظر آئی حتیٰ کہ خدا بھی تخلیق ہونے لگا...خودی کی براقی و دراکی اور تخلیقیت کی شان نہ انبیا کو معلوم تھی نہ صحائفِ آسمانی میں ان کا ذکر ہے، نہ سلف کے علم میں تھی نہ خلف کو اس کا پتہ ہے...اب سائنس کے مفروضات کی بنیاد پر ذات خداوندی اور اس کی برپاکردہ کائنات کے بارے میں اس آزادانہ تبصرے کی جرأت اسلامی تاریخ میں اقبال مرحوم کے حصے میں آئی۔ (۴۶) وہ کائنات کو خدا کا تخلیقی عمل سمجھتے ہیں جو ہنوز ناتمام ہے، گویا خدا تخلیقیت میں مصروف عمل ہے۔ ...بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ انسان کا درجہ اس قدر بڑھاتے ہیں اور خدا کا درجہ اس قدر گھٹا دیتے ہیں کہ تصور اس کے ادراک سے کانپتا ہے...مغربی فلسفے نے اقبال مرحوم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ انھوں نے خطبات میں کہیں لکھا ہے کہ ﷲ نے اپنی آزادی، طاقت حیات قدرت میں انسان کو شریک کر لیا ہے۔ (۸۹) خدا کا نقطۂ نظر تخلیقیت ہے یا نہیں یہ اقبال مرحوم کو کیسے معلوم ہوا؟ وہ خدا کے اس نقطۂ نظر تک کیسے پہنچے؟ یہ تو نبوت کا دعویٰ ہے۔ (۰۰۱) تقلید کے جمود سے نکلنے کے لیے اقبال مرحوم نے حرکت کا ایک ایسا تصور اختیار کر لیا جو صحفِ سماوی کی تاریخ میں اور مذہبی تہذیبوں کی تاریخ میں خالصتاً اجنبی تصور ہے۔ اس تصور سے یہ تصور بھی نکلتا ہے کہ تقدیر کا کوئی اور کاتب نہیں ہے، انسان خود کاتب تقدیر ہے جس کی دسترس سے لوح محفوظ بھی محفوظ نہیں۔ (۱۰۱) اقبال مرحوم انکار کرتے ہیں کہ خدا کائنات سے باہر نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب کائنات ہماری دسترس میں آتی جا رہی ہے تو ذات خداوندی بھی دسترس سے باہر نہ رہ سکے گی...یہ نقطۂ نظر بہت بڑی جسارت ہے۔ اس قسم کی جسارتیں ان کے یہاں عام ہیں...(۶۹)


مغربی فلسفے سے ناواقفیت:
ماڈرن ازم کے آغاز میں مغرب کا دعویٰ تھا کہ حقیقت پہچاننے کے لیے انسان خودکفیل ہے۔ اسے وہ صلاحیتیں حاصل ہیں جس سے وہ حقیقتِ مطلقہ (absolute reality) تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال مرحوم اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ کانٹ اس دعوے کی تردید کرتا ہے جو مغرب کا سب سے بڑا فلسفی اور ماڈرن ازم کا بنیادی فلسفی ہے۔ کیا اقبال مرحوم کانٹ سے بڑے فلسفی تھے اور مغرب کو مغرب سے بہتر جانتے تھے یا مغربی فلسفے پر کانٹ سے زیادہ عبور رکھتے تھے؟ (۱۰۱)...


اجتہاد کی اہلیت کا فقدان:
ترکی کے کمال مصطفیٰ اتاترک اور ترکی کی پارلیمنٹ جیسے کافرانہ ملحدانہ اداروں سے اجتہاد کی توقع کرنا اقبال مرحوم کی فاش غلطی تھی۔ اقبال مرحوم نے نثر اور شاعری کے اشارات میں ان مجتہدینِ عصر پر لطیف طنز کیا ہے جو علومِ نقلیہ میں رسوخ اور رسوخ فی الدین کے بغیر اجتہاد کے علمبردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان کی مذمت کرتے ہوئے اقبال مرحوم خود اپنے مقام کا جائزہ نہیں لیتے۔ کیا وہ ان مباحث کو برپا کرنے کے اہل تھے؟ عربی زبان سے واقفیت کے بغیر اور علم اسلامی میں رسوخ کے بغیر ایک ایسے منصب پر فائز ہونے کی کوشش جہاں سے وہ ملتِ اسلامیہ کی تشکیلِ نو کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں اور اجتہاد کا طریقۂ کار بھی خود طے کر لیتے ہیں...اجتہاد کرنے کے لیے کم از کم مطلوبہ قابلیت تو پیدا کیجیے۔ ...اقبال مرحوم یہ نکتہ فراموش کرتے ہیں کہ...اجتہاد کے دور میں ہی تاتاریوں نے مسلمانوں پر غلبہ کیسے حاصل کر لیا...پھر یہی غلبہ اچانک ختم ہو جاتا ہے اور مسلمان دوبارہ غالب آ جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی کس اجتہادی قوت کے ذریعے پیدا ہوئی؟...اگر مسلمان تاتاری غلبے سے اجتہاد کے بغیر نکل سکتے ہیں تو مغربی تہذیب کے غلبے سے نکلنے کے لیے صرف اور صرف اجتہاد پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے؟...قرآن کی آیتوں اور حدیثوں کو حرکت و ترقی کا مظہر قرار دینا بڑی عجیب بات ہے۔ یہ فکر تاریخ اسلام کے لیے اجنبی فکرہے۔...اقبال مرحوم وہابی تاریخ کے غلبہ کو اجتہاد کا غلبہ اور امت کے لیے نیک شگون تصور کرتے ہیں۔ یہ رویہ دراصل ان کی روحانیت کا نتیجہ ہے جو ملتِ اسلامیہ کا عروج چاہتی ہے خواہ یہ عروج جبراً ہو، جبکہ عروج جبر سے کیسے آ سکتا ہے۔ (۵۶-۴۶)


اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ:
قدیم علما نے اجتہاد کے لیے جو شرائط طے کیں وہ اقبال مرحوم کو عصرحاضر کے کسی فرد میں نظر نہ ائیں تو انھوں نے اجتماعی اجتہاد اسمبلی کے ذریعے کرنے کا اجتہاد فرمایا۔ جب شرائط اجتہاد فرد میں نہیں پائی گئیں تو اسمبلی میں کیسے اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ سو صفر اکٹھے ہو کر ایک کیسے بن سکتے ہیں؟ ... اسمبلی کے انتخابات کی بنیاد مساوات کے نظریے پر ہے، تمام انسان برابر ہیں...اب علامہ اقبال مرحوم اور ایک بقّال کا ووٹ برابر ہے اور دونوں یکساں طور پر جمہوری عمل کے ذریعے اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اب بقّال، حمّال، حجّام اور موچی اجتہاد کریں گے۔ اقبال مرحوم کا یہ نقطۂ نظر ان کی سطحیت کو واضح کرتا ہے۔ اس سطحیت کا احساس انھیں آہستہ آہستہ ہوتا گیا کیونکہ شروع میں خطبات پر علی گڑھ میں بہت داد ملی اور ہندوستان کے پڑھے لکھے جو مغرب سے مرعوب تھے انھیں اقبال مرحوم کے ذریعے اسلام کی فصیل میں نقب لگانے کا زبردست طریقہ مل گیا تھا۔ لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو حقیقت بھی کھل گئی۔ بعد میں اقبال مرحوم ہندوستان کے ان پڑھے لکھوں سے بہت متنفر ہوئے اور ان سے مکمل مایوس ہو گئے، بلکہ کہتے تھے کہ اگر میں آمر ہوتا تو ان کو ہلاک کر دیتا۔ (۸۷)
تعدد ازواج، طلاق اور عورتوں کے حقوق:
اقبال مرحوم مغرب کےFeminism سے شدید متاثر تھے۔ ایک مضمون میں انھوں نے لکھا تھا کہ تعدد ازواج اس عہد کے سیاسی اقتصادی ضرورتوں سے مشروط تھا اور فی زمانہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ”جو علما تعدد ازواج کی اجازت دیتے ہیں وہ امرائے قوم کو زنا کا شرعی بہانہ مہیا کرتے ہیں۔“ یہ جسارت مغربی فکروفلسفہ کا نتیجہ اور علوم اسلامی سے عدم واقفیت کے باعث تھی۔ لیکن آخر زمانہ میں اقبال مرحوم نے مغرب کی فحاشی عریانی بےحیائی دیکھی تو مجھے لکھا تھا کہ اسلام کے تعدد ازوج کے اصول کی اصل حقیقت تو مجھ پر اب واضح ہوئی ہے۔ اگر شارع علیہ السلام ہوتا تو چار کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عقل اور اجتہاد جب اصول دین بن جائیں تو اسی قسم کی افراط و تفریط لازمی ہے۔ پہلے دوسری کے بھی قائل نہ تھے، اب پانچویں کے بھی قائل ہو گئے۔ اسی لیے تقلید اجتہاد سے بہتر ہے اور اگر اجتہاد کرنا ہے تو ان تمام شرائط کا ہونا لازمی ہے جو علما نے بیان کی ہیں۔ بعد میں اقبال مرحوم نے عورتوں کے حدودکار، حجاب، تقسیم کار پر وہی موقف اختیار کر لیا تھا جس پر اجماع امت ہے۔(۹۷) فقہ اسلامی میں طلاق کے مسئلے کی تاریخی تحقیق سے بھی اقبال مرحوم گہری واقفیت نہ رکھتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے وکالت کے پیشے میں جب طلاق کے مقدمات کثرت سے دیکھے تو اس ضمن میں فقہی احکامات سے متنفر ہو گئے۔ احکام کی علت اور روح کو سمجھے بغیر محض چند واقعات و حادثات سے متنفر ہو جانا دین کا مزاج نہیں ہے۔ عورت طلاق لیتی ہے، مرد طلاق دیتا ہے، یہ فقہ کا اصول نہیں قرآن کا حکم ہے۔(۹۷) ایک بار انھوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ ہندوستانی معاشرے میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے، خصوصاً حنفی فقہ ولی کی شرط عائد کرتی ہے، یہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اس سوال پر تو ہم بعد میں بات کریں گے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ولی کے بغیر نکاح کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ وہ چپ ہو گئے۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ کی شادیاں کیا آپ کی مرضی سے ہوئیں؟ وہ غمگین ہو گئے۔ میں نے عرض کیا کہ جب اس عہد کا اتنا بڑا آدمی اپنی پسند سے شادی تو کیا طلاق بھی نہیں دے سکتا تو یہ کہنا کہ لڑکیوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہ دینا ظلم ہے، خلط مبحث ہے۔ (۹۷)
اقبال مرحوم کو پنجاب میں ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کے مقدمات کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ وہ پنجاب کی مقامی معاشرت، عادت، رسوم و رواج پر غور کرتے تاکہ اتنے بڑے پیمانے پر تنسیخ نکاح کے مقدمات کی توجیہہ کر سکتے، انھوں نے اسلامی فقہ اور حنفی فقہ میں خامیوں کی تلاش شروع کر دی۔ وہ جزئیات کو لے کر کلیات اخذ کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔ اسے ہم جدید اصطلاح میں سائنٹفک ذہن کہہ سکتے ہیں۔ اس سائنٹفک ذہن کا اطلاق سائنس پر کیا جا سکتا ہے، فقہ میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ عالم اسلام کی آبادی تقریباً پچاس کروڑ ہے۔ شادی شدہ عورتوں کی تعداد بھی کم از کم دس کروڑ ہو گی۔ اگر دس کروڑ عورتوں میں سے پنجاب کی دو سو عورتوں نے ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کا راستہ دیکھا تو اس سے فقہ اسلامی کی کمزوری نہیں بلکہ پنجابی معاشرے کی خامیاں سامنے آتی ہیں جو مسلمان تو ہو گئے لیکن عہد جاہلیت کے رسوم و رواج کے دائرے سے نہیں نکل سکے۔(۰۸)
جمہوریت و ملوکیت:
مغرب سے مغلوبیت نے اقبال مرحوم کو یہ باطل خیال پیش کرنے پر مجبور کیا کہ اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے۔ جمہور اور اجماع کی اصطلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ نئے مسائل پیش آنے پر جمہوری طریقے سے لوگوں کی رائے لے کر (ریفرنڈم وغیرہ) قانون وضع کر لیا جائے گا اور غالباً اسمبلی ان کی نظر میں اجماع اور جمہور کا متبادل تھا۔ فقہ اسلامی میں جمہور سے کیا عوام الناس مراد ہیں؟ اقبال مرحوم اس اصول سے تو آگاہ ہوں گے لیکن اس کی تفہیم انھوں نے مغربی منہاج میں کی تو یہ گمراہی خودبخود پیدا ہو گئی، اور اقبال مرحوم کے یہاں ایسی بےشمار گمراہیاں ملیں گی۔...جمہوریت ایک خالص مغربی اصطلاح ہے لہٰذا اسے اسلامی تاریخ اور فقہ میں ڈھونڈنا درست نہیں ہے۔ جمہوری اداروں کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنا اسلام کی تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں ملوکیت کی مذمت اور جمہوریت کی مدحت کہاں ہے...ملوکیت قرآن سے ثابت ہے، اسے قابل نفرت قرار دینے کی شرعی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔...آزادی اور مساوات کو اسلام میں ڈھونڈنا اسلام سے ناواقفیت ہے۔...اسلام اور آزادی دو متضاد نظریات ہیں۔ (۲۸) جمہوریت اور جمہوری عمل کا اسلام سے کیا تعلق اورخلافت اسلامی سے کیا تعلق؟...اسلامی جمہوریت ایک بےمعنی اصطلاح ہے۔ شورائیت کہہ سکتے ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ فرعون کی بھی شوریٰ تھی اور ملکہ سبا کی بھی شوریٰ تھی... تو شورائیت نظام استبداد اور آمریت میں بھی رہتی ہے، ملوکیت میں بھی ہوتی ہے اور خلافت میں بھی ملتی ہے۔...یہ کہنا کہ اسلام اور خلافت کا نظام خالصتاً جمہوری ہے، تاریخ اسلام کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ اب دیکھیے حضرت ابوبکر کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا، بیعت بعد میں ہوئی۔ خلیفہ تو انھیں مقرر کر دیا گیا۔ اس تقرری کا فیصلہ عوام نے نہیں ارباب حل و عقد نے کیا۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ منتخب ہوئے تھے؟ کیا رسول ﷲ نے انھیں خلافت کے فیصلے کا اختیار دیا تھا؟...ان کی حیثیت مسلمہ تھی۔ جس طرح اہل عرب اپنی اولاد کو پہچانتے تھے اسی طرح ان لوگوں کی اہمیت، حیثیت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ہر کہہ و مہہ کو خلافت کے فیصلے میں نہ شریک کیا جا سکتا تھا نہ شریک کرنے کی ضرورت تھی۔ اتنے اہم منصب کا فیصلہ ارباب حل و عقد کریں گے یا ہر ایک سے پوچھا جائے گا؟ قرآن کریم اس معاملے میں واضح ہدایات دیتا ہے جس سے جمہوریت کے فلسفۂ عوام کی نفی ہوتی ہے۔...قرآن نے طالوت کو ملک کہا، ذوالقرنین کو ملک کہا، کہیں ملوکیت کی مذمت نہ کی...لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن، اسلام ملوکیت کے خلاف ہے اور جمہوریت کے حق میں ہے، باطل خیال ہے۔(۱-۰۹)
مکاتبِ فکر اور اجماع:
اقبال مرحوم صاف لفظوں میں کہتے تھے کہ صرف مکاتب فکر کے اجماع کے تصور کو ختم کر کے اس تصور کو وسیع کر دیا جائے۔ صرف اقبال کے کہنے سے مکاتب فکر ختم نہیں ہو سکتے۔ اس امت میں بےشمار مکاتب فکر تھے، سب ختم ہو گئے، صرف چار رہ گئے۔ غیرفطری طریقے سے جو مکاتب ابھرے وہ فطری طریقے سے ختم ہو گئے۔ خطبات لکھنے اور تقریر کرنے سے نہ کوئی مکتب فکر وجود میں آتا ہے نہ ختم ہوتا ہے۔(۲۹) اصلاً وہ فقہ اسلامی کے قیمتی ذخیرے سے ناواقف تھے، اس پر ان کی گہری نظر نہ تھی۔ چند اہم مشہور کتابیں انھوں نے مترجم کی مدد سے پڑھ ڈالیں اور اس کمزور مطالعے کے بل پر لامحدود دعوے کر دیے۔ اس میں ان کا اخلاص موجود ہے لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔...فقہ احناف پر اقبال مرحوم کے تبصرے اس قدر سطحی ہیں کہ انھیں پڑھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اقبال مرحوم کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مختلف متحارب مکاتب فکر اور گروہوں کے لوگوں سے خط و کتابت کرتے تھے اور اس خط و کتابت سے حاصل شدہ معلومات کے تبادلے سے کچھ مفروضات قائم کر کے اپنی ذہانت سے بعض غیرمعمولی نتائج اخذ کر لیتے تھے۔ ان میں وہ علمی اہلیت نہیں تھی کہ ان نکات کی تائید و تصدیق متعلقہ کتب سے براہ راست کر سکتے۔ وہ علم کے بجائے تعقلی وجدان کے سہارے دین پر نقد کرتے تھے۔ لہٰذا ہر محقق و مفکر نے اپنے حساب سے اخذشدہ ادھوری، جانبدارانہ معلومات انھیں مہیا کر دیں۔ انہی معلومات پر انھوں نے اسلامی علوم پر نقد فرمایا ہے۔ احمد دین امرتسری کے مکتب فکر سے بھی ان کے مراسم اور خط و کتابت تھی...لہٰذا ممکن ہے کہ حنفیوں کے خلاف یہ جارحیت وہاں سے ملی ہو کیونکہ احمد دین امرتسری صاحب اہل حدیث تھے۔ (۴-۳۸) اقبال مرحوم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حدیث سے استدلال کا طریقہ استخراجی ہے یا استقرائی...سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حنفی مکتب فکر پر جمود، تقلید، ٹھہراؤ، یونانی منطق سے مرعوبیت کے بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے باوجود خطبات میں تسلیم کر لیتے ہیں کہ دوسرے مکاتب کے مقابلے میں حنفی مکتب تخلیقی اکتساب کی بہت زیادہ قوت رکھتا ہے۔ اگر حنفی جامد مقلد اور یونانی منطقی تھے تو پھر تخلیق کا سوتا ان کے مکتب فکر سے کیسے پھوٹ گیا؟ اقبال مرحوم کے یہاں اس طرح کے تضادات بےشمار ہیں کیونکہ بیشتر آرا ان کے مطالعے کا حاصل نہیں ہیں بلکہ ادھر ادھر سے استفادہ کر کے اپنے نام سے دین کی تشکیل کا دعویٰ کر دیا گیا ہے جو تضادات سے پر ہے۔اسی لیے یہ دعویٰ کبھی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔(۴۸)
اجماع کو لادینی سیاسی نظام کے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کا متبادل سمجھنا اقبال مرحوم کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس خیال سے رجوع فرماتے۔(۳۹) وہ ترکوں کے الحاد کو اجتہاد کا ہم معنی سمجھتے تھے اور اسے بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے۔ اس موضوع پر ان سے بہت تندوتلخ تبادلۂ خیالات بھی ہوا اور آخر میں وہ اس سے رجوع کر چکے تھے لیکن اس رجوع کا اظہار تحریری طور پر کرنے کی مہلت نہ ملی۔(۰۱۱)
دینی علوم سے کامل بےخبری اور اسلامی فقہ کے عظیم الشان ذخیرے اور علم التفسیر اور علم الحدیث کے اصولوں سے عدم واقفیت کے باعث اقبال مرحوم کے یہاں گمراہیوں کا ایک طویل سلسلہ در آتا ہے۔ ”معارف“ میں عموماً ان گمراہیوں پر سکوت کا ایک سبب یہ تھا کہ اقبال مرحوم کی ذات سے اور ان کے شاعرانہ کمالات سے ملت کو جو فائدہ پہنچ رہا ہے اس میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ مولانا ماجد [دریابادی] تو اس معاملہ میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جو کچھ لاوا ان کے دل میں ہے کتابی صورت میں تحریر کر دیں لیکن ان کو قائل کرنا پڑا کہ صبر سے کام لیں۔ ...ماجد صاحب نے ان کے الحادوکفر کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے انھیں متنبہ کیا تھا کہ وہ اس دریا کو پایاب نہ کریں۔...مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی قاری نے ان سے استفسار کیا تھا کہ کیا خطبات کا ترجمہ شائع ہو رہا ہے، اب کیا ہو گا۔ تو ماجد صاحب نے تیکھے انداز میں ”صدق“ میں جواب دیا تھا کہ اقبال مرحوم، سرسید جب یورپ کے سامنے اسلام کو پیش کرتے ہیں تو ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بات بھی زبان سے ایسی نہ نکل جائے جو یورپ کو ناگوار ہو۔ خطبات اگر ترجمہ ہو گئے تب بھی اس کے فروغ کا دائرہ بہت محدود رہے گا اور یہ فتنہ کبھی پھیل نہ سکے گا۔ مولانا دریابادی کا یہ اعتماد کتنا درست تھا؟ خطبات کو میں فتنہ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ اقبال مرحوم نے ان مباحث سے رجوع کر لیا تھا اور نظرثانی کر رہے تھے، انھیں اس کا موقع نہ ملا۔ (۵۸) ماجد صاحب کی تنقید کے بعد اقبال مرحوم نے خطبات کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ انھیں احساس ہو گیا کہ یہ مباحث اتنے سادہ نہیں کہ انھیں امہات کتب کے تراجم کی سماعت کے ذریعے طے کر دیا جائے۔ غالباً کسی بیان میں اقبال مرحوم نے یہ کہا ہے کہ میں Islam as I understand it کے نام سے کتاب لکھ رہا ہوں...میرے خیال میں خطبات اقبال مرحوم کا نام اگر تبدیل کر دیا جائے بلکہ خطبات اقبال مرحوم کا بہترین نام میری نظر میں Islam as I understand it ہونا چاہیے کیونکہ خطبات میں صرف وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو اقبال مرحوم سمجھتے تھے۔ خود اسلام کو علوم اسلامی، علماءاسلام اور تعامل امت کے ذریعے سمجھنے کی روایت اقبال مرحوم نے ترک کر دی لہٰذا قدم قدم پر ٹھوکر کھائی...اقبال مرحوم کو قلق تھا کہ علماء نے ان کے خطبات کا خیرمقدم نہیں کیا۔ وہ علماء کی طاقت سے بخوبی واقف تھے اور تن تنہا ان سے مقابلہ کی سکت نہ پاتے تھے۔ انھیں ملال تھا کہ سرسید نے علماء کا جو اثر کم کر دیا تھا وہ خلافت کمیٹی کی سیاست کے بعد دوبارہ بحال ہو گیا ہے اور اسی اثر سے وہ خائف تھے۔ ماجد صاحب کی تنقید نے اقبال مرحوم کو بہت محتاط بنا دیا تھا۔ یہ ﷲ تعالیٰ کا خاص احسان ہے ورنہ اقبال مرحوم جیسے قیمتی شخص کے قلم سے دشمنان اسلام کو بہت مہمیز مل سکتی تھی۔(۴۱۱) خطبات اقبال دراصل مسلم جدیدیت کی بائبل ہے لیکن اتنی ادق اور عسیرالفہم ہے کہ منکرین حدیث اپنے خاص موثر اسلوب میں زندگی بھر صرف خطبات اقبال مرحوم کی تشریح لکھ دیتے تو لاکھوں مسلمانوں کا ایمان متزلزل کر دیتے۔...اگر جدیدیت پسند طبقات میں سے ایک بھی خطبات کو اپنا اوڑھنابچھونا بنا لیتا تو اس تحریک کو روکنا مشکل تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مستقبل میں برعظیم کے مذہبی معاشروں کو تہس نہس کرنے کے لیے خطبات اقبال کو ایک طاقتور قوت کے طور پر کام میں لایا جائے گا۔(۳۰۱)
اقبال مرحوم نے آیات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر مطالب اخذ کیے ہیں۔ ان مطالب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مرحوم کا فہم قرآن نہایت ناقص تھا۔ وہ قرآن کی تشریح و تفہیم پر قادر نہ تھے اور قرآنی الفاظ کا درست مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے، کیونکہ ان کی عربی استعداد برائے نام تھی۔...اسلام کی تشکیل جدید کا دعویٰ کرنے والے اگر قرآن ہی سے واقف نہیں ہیں تو انھیں تشکیل کا کیا حق پہنچتا ہے۔(۵۹) اقبال مرحوم کے یہاں تضادات کا یہ تنوع غالباً اس وجہ سے بھی ہے کہ اقبال مرحوم نے ۲۱۹۱ء کے بعد سے مطالعہ کتب ترک کر دیا تھا۔ وہ صرف قرآن پڑھتے تھے یا مثنوی۔ کبھی کبھار کوئی کتاب دیکھ لیتے۔ لہٰذا صرف قوت حافظہ، سابق مطالعہ اور زبردست قوت مشاہدہ کے زور پر وہ علمی و تحقیقی کام کرتے تھے۔(۶۹)


(ماخوذ از ”جریدہ“، شمارہ 33، شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)




No comments:

Post a Comment